ہیں ہم بھی وہی گردشِ ایام بھی وہی
بدلتے موسم کےرنگ و بام بھی وہی
کمی ہے تو تری دید کی
وگرنہ تیرے ہجرکے آلام بھی وہی
تیری صُحبت کو پھر پانہ سکے
یہ صُبحیں اور یہ شام بھی وہی
وہ سیاہ رات اور گرج بادلوں کی
بیتےلمحوں کی چُبھتی یاد میں گُمنام بھی وہی
وہ ہر سُو مہک اور تتلیوں کی اُڑن
بس تو نہیں ترا نام بھی وہی
مَے کی بدلتی رنگت نے مخمور کیا
مَےکدہ بدلا پر جام بھی وہی
ترے وَصل کی چاہت نےمجبور کیا
پَردوڑتی زندگی کی لگا م بھی وہی۔ ۔ ۔ ۔
Tahira Imam
Second year (Q-46)