INQUISITION______
ایسا لفظ ہے جسے بیان کرنے کیلیے ایک لفظ یا چند الفاظ کا مجموعہ کافی نہیں ہوگا، اسی لیے اس پر میں نے ایک علیحدہ باب لکھ دیا ہے جو اس داستان کے لیے دیباچے کی حیثیت رکھتا ہے_______ جسے لکھتے وقت مجھے رات کی تنہائیوں میں کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میں اندلس کی فضاؤں میں سانس لے رہا ہوں___ میری نگاہوں کے سامنے اس دور کی داستانیں دہرائی جا رہی ہیں جب اندلس کے مسلمان مورسکوز(Morsco) بن گئے تھے____ جب مورسکوز اس الزام میں زندہ جلائے جاتے کہ وہ دل سے عیسائی نہیں ہوئے اور ابھی تک اپنے اسلاف کے دین سے محبت کرتے ہیں____ جب انکوی زیشن کے اذیت خانوں میں بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں کی چیخیں سنائی دیتی تھیں____ جب ان مظلوموں کے بھائی موت و حیات سے بے پروا ہو کر میدان میں نکل آتے تھے اور دشوار گزار پہاڑوں میں پوری سلطنت کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو جاتے تھے______
کتنے حسین اور معصوم لوگ تھے جنہیں میں نے تصور میں زندہ جلتے دیکھا تھا!!!
اور جب میں اس بھیانک ماضی سے حال کی طرف لوٹتا تھا____ جب میں یہ دیکھتا کہ یہ میرا کمرہ ہے جہاں کتابیں بکھری ہوئی ہیں_____ یہ وہی گھر ہے جہاں میرے بال بچے رہتے ہیں ______ میں اسپین کا مورسکو نہیں بلکہ پاکستان کا مسلمان ہوں تو بے اختیار میرے دل سے یہ دعائیں نکلتی ہیں:
“میرے اللہ! پاکستان پر اپنا کرم فرما!! یہ ہمارا آخری حصار ہے اور ہمارے لیے یہاں سے پسپائی کیلیے کوئی جگہ نہیں____ تیرے عاجز بندوں کی یہ جائے پناہ کسی نئے ابو عبداللہ یا ابو القاسم کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔
رب العالمین! ہمیں ان لوگوں کے شر سے بچائیو، جو ہمارے قومی تشخص اور ملتِ اسلام سے ہمارے تاریخی رشتوں کو کاٹنا چاہتے ہیں۔ آمین!”
نسیم حجازی کے ناول “کلیسا اور آگ” سے اقتباس
By Rehan Ahmed Q47
👌👌👌