کائنات کی ہر شے اپنا انفرادی وجود رکھتی ہے۔ کوئی مانے نہ مانے، میں مانتا ہوں کہ ہر شے کے پاس کہنے کو کچھ نہ کچھ ہے، خواہ وہ جاندار ہے یا بے جان، زبان والی یا بے زبان، چرند پرند یا انسان۔ کتنے جذبے، کتنے قہقہے، کتنی مسکراہٹیں اور کتنے آنسو صرف اس لیے مر گئے کہ وہ گونگے تھے حالانکہ وہ تا قیامت زندہ رہنے کے حقدار تھے۔ دنیا میں ایسی کتنی ہی چیزیں روزانہ مر جاتی ہیں جو مرنے کی مستحق نہیں ہوتیں۔کیسی کیسی خوبصورت چیزیں اپنے حصے کی تعریف لیے بغیر فنا ہو جاتی ہیں اور کیسی کیسی بدصورت چیزیں اس حسرت میں مٹ جاتی ہیں کہ کوئی صاحبِ نظر ان کے اندر کی خوبصورتی بھی دیکھے۔ کتنی بوڑھی آنکھیں ہر روز بند ہو جاتی ہیں ایسے ایسے خوبصورت واقعات اور ایسے ایسے حسین مناظر اپنے اندر دفن کر کے جو دوام پانے کو رونما ہوئے تھے۔
ہماری پرانی چیزیں جو عرصہء دراز سے ہمارے پاس ہوں، ہمارے نجانے کتنے راز جانتی ہیں، کتنی باتیں جانتی ہیں، وہ باتیں بھی جو ہم کب کے بھلا چکے۔ ہمارے کمرے کی دیوار پر لٹکا گھڑیال ہر لمحے ٹک ٹک کر کے ہمیں اپنی طرف متوجہ کرنے کی جہدِ مسلسل میں لگا رہتا ہے مگر ہم اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ خود کو ہی دیکھ لیں، ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ کوئی اسے ایکسپلور کرے، اس میں دلچسپی رکھے، اس کی خوبیوں کو سراہے، اس کی خامیوں کو نظر انداز کرے۔ گویا ہر چیز بشمول ہمارے لا شعور میں ہی سہی مگر بقا چاہتی ہے۔ یعنی اگر ہم مر بھی جائیں تو زندہ رہیں کسی کی ڈائری میں، باتوں میں، آنسوؤں میں، ہنسی میں۔ دنیا میں ہر شے کی کہانی ہے، ہر شے اپنے اندر الفاظ کا ایک سمندر مؤجزن رکھتی ہے، بولنے کیلیے بے تاب ہے، مگر کیا کرے، زباں نہیں۔
ان بدنصیب بے سکون چیزوں کو سکون مل سکتا ہے اگر انہیں زبان مل جائے، تبھی ان کی کیتھارسس ہوگی۔ ہمارا قلم ان کی زبان بن سکتا ہے۔ ان سب چیزوں کی امید سے بھرپور نگاہیں ہمارے قلم پر ٹکی ہیں کہ کب اسے جنبش ہو اور کب انہیں آرام ملے، اپنے حصے کی کہانی کہہ کر امر ہو جائیں اور سکون سے فنا ہوں، اور فنا بھی کیسی، بقا جیسی۔ کسی چیز کے بارے میں لکھ کر اسے ایک نظر دیکھیے، وہ آپ کو پہلے سے زیادہ پر سکون نظر آئے گی۔ ہر چیز حق رکھتی ہے کہ اس کے بارے میں لکھا جائے، منٹو کے الفاظ میں کہوں تو ہر چیز جیسی ہے ویسا ہی بیان کیے جانے کا حق رکھتی ہے۔ یہ بھی مخلوقِ خدا ہے، اور اہلِ قلم یہی سوچتے ہیں کہ ان کے بارے میں لکھ کر انہیں سکون پہنچانا کسی طور عبادت سے کم نہیں۔ ایک ادیب، ایک عابد و زاہد ہوتا ہے۔ اس کا قلم کبھی بے جان اور بے زبان کو زبان بخشتا ہے تو کبھی مجبور و مقہور کی سسکیوں کو کاغذ پر اتار دنیا میں پھیلا دیتا ہے۔۔ کبھی ایک اقبال فرش والے تو فرش والے، عرش والوں کو بھی ہلا دیتا ہے۔ کبھی کوئی منٹو معاشرے کی چھپائی گئی بھیانک تصویر کو بے نقاب کر کے ہمیں آئینہ دکھاتا ہے۔ کوئی غالب، کوئی میر اپنے قلم سے وہ کام کر جاتا ہے کہ تاریخ اسے اپنے اندر سمونے میں فخر محسوس کرتی ہے۔
اور یہ قلم قرطاس کو جوڑا خدا کی طرح فیاض ہوتا ہے۔ جھونپڑی میں رہنے والے فقیر اور محلوں کے مکین بادشاہ کیلیے یکساں مہربان۔ کسی خوبصورت کے غرور اور بدصورت کے احساسِ کمتری کیلیے ایک سا شفیق، چھلکتی آنکھوں مسکراتے ہونٹوں کا سانجھا رفیق اور اگر صحیح ہاتھوں میں ہو تو سب سے بڑا صدیق۔
“نون والقلم” کی تشریح ابنِ کثیر نے بہت خوب کی ہے۔ لکھتے ہیں کہ خدا نے سب سے پہلے قلم دوات بنائے۔ قلم سے کہا کہ لکھ، اس نے کہا کیا لکھوں، کہا تقدیر لکھ۔ چنانچہ اس نے روزِ اول سے روزِ آخر تک سب کچھ لکھ ڈالا، ایک تنکا تک نہ چھوڑا۔ شعر ہیں کہ
پوچھا گیا کہ کیا ہے زمانے کو محترم
کیوں روز و شب میں قید ہے دنیائے مختَتَم
کس زیر و بم کی زد میں یہ گردوں ہے دم بدم
آواز دل سے آئی فقط نون والقلم
(رانا)
گویا ‘لکھنا’ رسمِ خداوندی ہے۔ اس لیے قارئین! لکھیے، اپنے حصے کا فرض ادا کیجیے، قلم و قرطاس کا حق ادا کیجیے، سکون بانٹیے اور سکون پائیے۔
ریحان رانا
ڈیرہ نواب صاحب
11 فروری، 2018
شب 1بجے۔