نہ آسمان کی، نہ زمین کی،نہ بہشت کی فریاد ہے
تجھی کو گر تجھ سے مانگ لوں تو پھر کیا ہو؟
آج چاند تاروں سے روشن جو ہیں راتیں میری
جو کبھی جلوہ گر تو ہو جائے تو پھر کیا ہو؟
جہاں میں ہر سو جیسے پھیلا ہوا ہے تو
ميرے دل ميں بھى يوں ہى سما جاۓ تو پھر کيا ہو؟
یہ جو لوگ کہتے پھرتے ہيں کافر مجھ بے ضرر کو آج
اس گناہگار پہ جو کل تیری رضا ہو جائے تو پھر کیا ہو؟
موت تو نہیں مانگی کبھی حرام ہے کہ کر
جو تیرے سے اک ملاقات مانگ لوں تو پھر کیا ہو؟
آج جس کے دیدار کو تڑپ رہی ہوں میں ہر پل
کل وہ پردہ پوش روبرو ہو جائے تو پھر کیا ہو؟
شازمہ سحر
(Q-47)