روٹھے کو منایا جائے کیسے
پھر سے اپنا بنایا جائے کیسے
ملنے جاؤں گا تَو سوچے گی
خود کو سجایا جائے کیسے
تُو ہی بتا تَو وہ سرخی کا نشاں
اپنی قمیض سے مٹایا جائے کیسے
اسی لئیے تَو غزل لکھتا ہوں
اب زخمِ دل دِکھایا جائے کیسے
خود سے باہر نکل آیا تھا
اپنے آپ میں آیا جائے کیسے
میں سدھر گیا , اب وہ پریشاں ہے
اِسے پھر سے ورغلایا جائے کیسے
دھواں اٹھتا ہے ؟ چلو اٹھنے دو
عشق لگی کو بجھایا جائے کیسے
جو خدا سمجھ بیٹھے خود کو
اسے انساں بنایا جائے کیسے
قلم پوچھے, “کرے بیاں تیری روداد”
“عمیر ! وہ آنسو بہایا جائے کیسے”
(عمیر غفور عمیر)
MUHAMMAD UMAIR GHAFOOR
SECOND YEAR