میں انسان ہوں؟
میں انسان ہوں؟
تم بھی انسان ہو؟ کیا واقعی؟
کیا تم مرد ہو؟ کیا میں بھی آدم ذات ہوں؟
کیا تم ایک باپ ہو؟ کیا میں بھی باپ بنوں گا؟
کیا یہ سب سچ ہے؟
نہیں ! نہیں یار ایسے مزاق نہیں کیا کرو تم میرے ساتھ ۔
چلو ایک عہد کرتے ہیں کہ آج سے مرد کو ہر ادبی زبان میں درندہ لکھا جاۓ گا۔
معیوب لگ رہا ہے؟ کیوں ؟
سچ ہے تو برا لگے گا ہی۔
اے رب ! ایسے انسان پیدا کر دیے ؟ تجھے تو اونگھ نہیں آتی پھر تیرے جاگتے ہوۓ یہ سب کیا ہے؟
تیرے وہ سب فرشتے کہاں ہیں ؟ تیری حفظ و امان کہاں ہے ؟ خدا ! اے میرے رب ! تو سن تو رہا ہے نا ؟
سب کچھ دیکھ بھی رہا ہے نا ؟
سمیع البصیر تیرے عظیم ناموں میں سے ایک نام ہے نا؟ مرد ذات بنائی کیوں گئی؟ چلو بنا بھی دی تو ایسی درندہ ذاتیں کیوں بنائی گئیں۔
عبادت کے لیے؟ ایسے لوگوں کی عبادت؟ یا امتحان کے لیے ؟ کیا ایسے لوگ امتحان دینے کے اہل بھی ہیں ؟ اے رب کیا یہ سچ ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟
کسی کے گناہ کے بغیر تو تو کسی کو سزا نہیں دیتا نا ؟ تو پھر کیا قصور تھا آدم سے تخلیق کی گئی حوا کا ؟ کیا صرف ظلم و ستم اور درندگی سہنے کے لیے پسلی سے بنائی گئی ؟ ایسا تو نہیں تھا جہاں تک میں جانتا ہوں؟
یہ ہو کیا رہا ہے؟
کس کی خاطر تو اتنا صبر کیے ہوئے ہے؟
تو دیکھتا تو ہو گا اور تجھے معلوم بھی ہو گا۔اس میں شک کی تو گنجائش ہی نہیں ۔
تجھے معلوم ہے نا وہ ‘ وہ کمسن فرشتہ ‘وہ ننھی زینب ‘ وہ کرن ‘ آسیہ اور باپ کی بھینٹ چڑھنے والی شازیہ ۔ معلوم ہے نا ؟
کمسن فرشتہ کے وقت تیرے ساتون آسمان کے فرشتے کہاں تھے؟ کرن کے وقت تیرے سورج کی کرنیں کن ظلمات کا سفر طے کر رہی تھیں؟ ستر ماؤں سے زیادہ پیار اور تیری مخلوق کے مجرم آج بھی لا پتہ ۔ کیسے؟ کیوں؟
کل والا واقعہ تو سند کو گا فرشتوں کے پاس۔ چلو کچھ میں بھی نقشہ کھینچ دیتا ہوں؟
نمرتا ! ہاں تیرے ہی کن سے پیدا کی گئی ایک باپ کی بیٹی تھی۔
تیرا یہ مکافات عمل بھی عجیب ہے۔ ایک شخص درندگی کرے تو اس کا مکافات عمل اس کے گھر کی عورت پورا کرے گی۔ یہ کیا ؟ یعنی بدلے میں بھی عورت کی ذات فنا ؟اصل مجرم کی سزا کہاں ہے ؟ میں نہیں جانتا یہ کیا ہے۔لیکن یہ تیرے اصول نہیں ہو سکتے ۔ تیرے ہیں ؟ تو تو کہاں ہے؟ ہر جگہ؟ لاڑکانہ میں بھی ۔ جب اس کے قریب کوئی وحشی درندہ آیا ہو گا تو وہ ڈری تو ہو گی نا؟ اے رب ! اس نے تجھے پکارا تو ہو گا ؟ بے بسی میں ہی سہی لیکن تجھے آواز تو دی ہو گی۔ اپنی زندگی دہرا کر دیکھا تو ہو گا کہ یہ کس گناہ کی سزا ہے۔ اسے اپنی ماں یاد تو آئی ہو گی۔ وہی ماں جس نے گود میں اسے کھلایا تھا۔ باپ کا نقشہ تو اس کے زہن میں آیا ہو گا ۔جس کی جوانی کے بدلے اسے جوانی عطا کی گئی۔نمرتا روئی تو ہو گی۔ زندگی ہارتے ہوۓ تکلیف سے تو گزری ہو گی؟ تو تب بھی جاگ رہا تھا۔ کیا اس درندہ انسان کی سانس تیرے قبضے میں نہیں تھی؟ تھی نا؟ ایسے درندے کو زندہ کیوں رکھا اور وہ زندہ کیوں ہیں؟ اس کا صلہ نمرتا کو کیا ملے گا ؟ ایسے کب تک ہو گا ؟ یہ درندگی کی زندگی کب ختم ہو گی ؟ مظلوم کی بجاۓ درندہ صفت کب مارے جائیں گے۔ کب تک مائیں بیٹیاں ایسے درندوں کے لیے پیدا کرتی رہیں گی؟ میں کچھ نہیں جانتا اے میرے رب!
لوگوں کو محبت ‘ حوس ‘ درندگی اور قتل کا فرق نہیں معلوم۔ انہیں عقل سلیم عطا کر ۔ درندوں کی نسل جڑ سے ہی ختم کر دے نا اے میرے خدا۔ ایک باپ کو بیٹی پیدا ہونے پر ڈر اور فکر سے آزاد کر ۔ اس کے لیے ایسے درندوں کی کی صف کو ختم فرما دے۔ تو العلیم ‘ الکبیر ہے۔ تو سب کچھ کر سکتا ہے۔ تو بہتر جانتا ہے۔ کب تک مائیں یہ ستم برداشت کریں ۔
خدا آپ کو اور ہمیں نیک بناۓ ‘ آسانیاں پیدا کرے اور آسانیاں پیدا کرنے والا بناۓ ۔اور حدود پار کرنے سے بچاۓ اصل حدود سے اپنی انا اور مغروریت کی نہیں ۔ آمین
(ازقلم: زین العابدین، سال اول)