باب توبہ
ہاں یار ہادی چلیں
شیشے کے سامنے کالر ٹھیک کرتے ہوئے ارسل کہہ رہا تھا
ہادی :نہیں یار پھر کبھی چلوں گا
ارسل :ہمیشہ کی طرح
ارسل کے چہرے پے مسکراہٹ آئی تھی
ارسل :ٹھیک ہے تم اپنا ٹائم لو
وہ روم کا دروازہ بند کر کے جا رہا تھا
ہادی پھر سے کمبل اوڑھے سونے کی نا کام کوشش کرنے لگا تھا
آج شب جمعہ تھا اور حسب معمول ارسل پھر سے ہادی کو دعوت دینے کے بعد چل پڑا تھا
لیکن آج صبح سے ہی ہادی کا دل بے چین تھا….. وہ سکوں کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا
وہ ایک پر سکوں اور خاموش جگہ کا متلاشی تھا جس سے اُسے قرار آ جائے…. وہ ہادی جو ہمیشہ اپنے چہرے پے مسکراہٹ سجائے رکھتا اور چٹکلے چھوڑا کرتا تھا آج خود ایک چٹکلہ بن کے رہے گیا تھا…. آج اچانک سے وہ ایک خاموش طبیعت کا حامل آن ٹھہرا تھا
اُسکی مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی اسکی ہنسی مزاح کی عادت پاس ہی کسی ویران قبرستان کے ویران کونے میں دفن ہو چکی تھی… وہ آج نا محرم کے بارے میں بات کرنا تو دور سوچنا تک گوارا نہیں کر رہا تھا…وہ ہادی جو اپنے دوست ارسل کو چپ چاپ رہنے پے ہنسی مزاح کا نشانہ بنایا کرتا تھا آج خود کو وقت ہاتھوں ایک مذاق سمجھ رہا تھا
کھایا پیا بھی کچھ خاص نہیں رات ہوئی تو بے چینی کا عالم کم نہ ہوا…رات اپنے پچھلے پہر میں داخل ہو چکی تھی.. سارے کا سارا ہاسٹل خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا سوائے اس کے جو ابھی بھی کمرے کی چھت کو ٹک ٹکی باندھے دیکھ رہا تھا…وہ سوتے سوتے اپنے ماضی کے تلخ ابواب کا مطالعہ کر رہا تھا…. وہ ہر اُس باب کا مطالعہ کر رہا تھا جو گناہ آلود ہو چکا تھا… آج اُس کے اندر ایک احساس پیدا ہو گیا تھا وہ غلط کو غلط تصور کر رہا تھا اُسے نیکی اور بدی کا فرق پتا چل رہا تھا…..وہ چیخ چیخ کر رونا چاہ رہا تھا… اُس کی چیخیں جیسےہلک میں اٹک کر رہی گئ ہوں ……ندامت کا ایک سمندر تھا جو اس کی آنکھوں سے بہے رہا تھا….اس کا تکیہ آنسوؤں سے تر ہو چکا تھا… اشک تھے کہ سیلابی ریلے کی طرح تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے..وہ اپنے گناہوں پر نادم و شرمندہ ہو رہا تھا اُسے یوں لگ رہا تھا جیسے گناہوں کی گٹھڑیاں باندھ کر اس کے سر پر رکھ دی گئ ہوں اور وہ نیچے دھنستا جا رہا ہو…. وہ اس بوجھ کو اتار دینا چاہتا تھا مگر کیسے وہ یہ ایک سوال تھا جو اس کے لیے بے چینی کا باعث بنا ہوا تھا
چار پائی پر لیٹے وہ کروٹیں بدل رہا تھا کبھی کمبل سر پر لیتا تو کبھی تکیے میں منہ چھپا کر سکوں کی تلاش میں نکلتا وہ ہر طرح سے ناکام ہو رہا تھا اُسے سکوں نہیں مل رہا تھا… وہ رات کے اندھیرے میں سڑک پر نکل چکا تھا…. وہ سڑک پر مارا مارا پھر رہا تھا…کبھی ادھر جاتا تو کبھی اُدھر.. تو کبھی راستے میں پڑا پتھر اٹھا کے دور پھینکتا… وہ چلتے چلتے پارک میں پہنچ گیا تھا… جو سڑک کے اُس پار تھا… وہ اکثر وہاں جایا کرتا تھا جب بھی کبھی اداس ہوتا اور گھنٹوں پارک میں گزار دیتا…وہ شوروغل کا طوفاں جو اُس کے دل میں اتر چکا تھا وہ اُس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تھا ایک بے چینی کا عالم تھا جس میں وہ رہائش پذیر ہو چکا تھا.. وہ چاہتے ہو ئے بھی اُس سے نہیں نکل پا رہا تھا
وہ بنچ پر بیٹھا گھٹنوں پر کہنی رکھے سر کو سہارا دیے ہوئے تھا… سڑک پر اب بھی کبھی کبھار کوئی گاڑی آجاتی تھی.. پارک کے کچھ ہی فاصلے پر دائیں جانب ایک پیٹرول پمپ تھا ایک دو ملازم اور اتنے ہی گارڈز کو دیکھا جا سکتا تھا… وہ پارک کے بلکل بائیں جانب بیٹھا تھا… وہ ان سے کوسوں دور تھا… پارک کے پچھلی جانب ایک مسجد تھی جہاں ذکرے الہی کی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا جو کہ اب تک جاری تھی…بنچ پر بیٹھا مسجد سے آتی آواز کو وہ سن سکتا تھا… وہ سننے لگا تھا.. وہ سن رہا تھا…کتنا عجیب تھا نا…؟وہ شخص جو کبھی موبائل یا پھر ٹی وی دیکھتے کوئی تلاوت قرآن پاک یا اس جیسی کوئی چیز ہوتی پلک جھپکتے بدل دیتا تھا آج وہ یہ سب نہایت ادب و احترام سے سن رہا تھا…کچھ تھا جو اس کے اندر تبدیلی لایا تھا… وہ کیا چیز تھی…؟ جس نے اسے دہانے پر لا کے کھڑا کر دیا تھا…
کیا وہ اس کا احساس تھا..؟
اس کی ندامت..؟
یا پھر رب العالمین کی طرف سے ہدایت…. ؟جس کی وہ کبھی کبھار دعا مانگا کرتا تھا… اُسے وہ دن بھی یاد آ رہا تھا جب ایک بار ارسل کو عمرے کی ادائیگی کے لیے جاتے ہوئے اپنے لیے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ہدایت کے لیے دعا کا کہا تھا شاید آج اُسکی قبولیت کا وقت قریب آن پہنچا تھا
وہ پھر سے مسجد سے آتی آواز سننے لگ گیا تھا..
“اے مجرموں آج تم الگ ہو جاؤ”
وہ اپنے آپ کو ان مجرموں کی لسٹ میں شامل کیے یومِ محشر میں پہنچا ہوا تھا وہ تنہا کھڑا تھا اُس کا کوئی ساتھی نہیں تھا سب نے اُسے اکیلا چھوڑ دیا تھا وہ کسی کو نہیں پکار سکتا تھا..
” اے انسان کس چیز نے تجھے تیرے کریم رب کے متعلق دھوکے میں ڈالے رکھا”
کہ جو مرضی تو کرتا پھرے,جھوٹ, بغض, حسد, کینہ, ظلم، بد کاری, شراب نوشی,چوری, ڈاکہ زنی غرض یہ کہ جو دل میں آ ئے کر کوئی حساب نہ ہوگا اور کوئی سوال نہ ہوگا…
اُس کے آنسو اُس کے چہرے سے ٹپک رہے تھے اُس کا دامن گیلا ہو چکا تھا وہ چیخ چیخ کر رونا چاہ رہا تھا اس کی چیخیں اس کے ہلک میں اٹک گئی تھیں…
“ایک زرہ بھر بھلائی کرے اسے دیکھے گا اور زرہ بھر برائی کرے اسے دیکھے گا”
اُسے اپنی کی ہوئی برائیاں یاد آ رہی تھیں اس کا کیا ہوا ایک ایک کام اُس کے آگے گزر رہا تھا وہ ہر ایک ظلم و ستم جو اُس نے کر رکھا تھا وہ ان سب کو دیکھ سکتا تھا.. وہ دیکھ رہا تھا وہ دیکھتا جاتا اور زاروقطار روتا جاتا
وہ اپنے آپ کو گناہوں کی کشتی میں سوار کیے آگ کے دریا میں تیر تا ہوا محسوس کر رہا تھا…اس کی کشتی بھنور میں پھنس چکی تھی وہ ہچکولے کھا رہی تھی وہ اس آگ کے دریا میں گرنے لگا تھا وہ سنبھلنے کی کوشش کر رہا تھا….
“موت و حیات کو پیدا کیا تا کہ جان سکیں تم میں سے کون اچھے عمل لاتا ہے”
وہ بنچ سے گر کر گھٹنوں کے بل آچکا تھا… اسکی آنکھوں میں ندامت کا ایک سمندر تھا جو لہروں کی صورت میں نکل رہا تھا سڑک پر لگی لائٹس اسے دھندلاہٹ کا شکار ہوتی دکھائی دے رہی تھیں… وہ آنسوؤں کے پردے کے پیچھے چھپ چکی تھیں وہ اب انکو نہیں دیکھ سکتا تھا… اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا…وہ چیخ و پکار کر رہا تھا… یا غفور الرحیم…..
یا غفور الرحیم…… کی صدائیں بلند کیے ہوئے تھا
“آج کے دن کسی جان پر کوئی ظلم نہیں ہو گا”
اُس کا کیا ہوا ہر کام اُس کے لیے وبال جان بن گیا تھا وہ سب کی تلافی کرنا چاہ رہا تھا اُسے وہ دل کا شفاف آئینہ یاد آ رہا تھا جسے وہ سیاہ رنگ دے چکا تھا
“یہ وہ جہنم ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا”
وہ سجدہ ریز ہو چکا تھا آنسوؤں سے جگہ تر ہو چکی تھی.. خود کو دہکتی زنجیروں میں جکڑے ہوئے جہنم کے کسی کونے میں فرشتوں کے ہاتھوں عزاب کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھ رہا تھا اُس کے لب سے
اللھم اجرنی من النار…. اللھم اجرنی من النار…. کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں وہ چیخ چیخ کر یہ کلمہ دہرائے جا رہا تھا… رب غفرلی رب غفرلی کا ورد جاری تھا…
“وہی رب ہے مشرقین اور مغربین کا”
رب العزت کی ہیبت اُس پے تاری تھی.. وہ رب محمد کی وحدانیت، بادشاہت اور معبودیت کا قائل ہو چکا تھا
“اور جو رب کی بارگاہ میں کھڑا ہونے سے ڈرا اُس کے لیے دو جنتیں ہیں”
امید کی کرن اُس کے اندر جاگ اٹھی تھی… آنسوؤں میں تر، خوف الہی سے سجدہ ریز استغفار اور رب غفرلی کی صدائیں بلند کیے ہوئے تھا آج اُسے گناہ کا احساس ہو چکا تھا وہ اپنے کیے پر ندامت کا اظہار کر رہا تھا آج وہ کسی مقام پر فائز ہونے والا تھا آج اس سے اس کا رب راضی ہونے والا تھا وہ ہدایت جس کی وہ کبھی کبھار تمنا کیا کرتا تھا آج اسکی قبولیت کا وقت قریب آن پہنچا تھا آج اس کے لیے بَاب ہدایت کے بعد بَاب توبہ کھول دیا گیا تھا ندامت ک آنسوؤں بہاتے بہاتے وہ سو چکا تھا…. رب دو جہاں نے اسکی دعا سن لی تھی وہ ہدایت پا چکا تھا…اس کے بے چین دل کو قرار آگیا تھا شیطان کی سالہاں سال کی محنت کو ندامت کا ایک آنسو بہا کر کہیں دور لے گیا تھا…..
فجر کا وقت آن پہنچا تھا
اللہ اکبر کی صدا اس کے کانوں میں پڑ رہی تھی وہ اٹھ گیا تھا…
“گواہی دیتا ہوں اس ک سوا کوئی معبود نہیں”
وہ انگشت شہادت آسمان کی طرف بلند کر رہا تھا
“گواہی دیتا ہوں محمد (ص)اللہ کے رسول ہیں”
چہرے پر مسکراہٹ لائے اس حقیقت کوتسلیم کر رہا تھا
“آؤ نماز کی طرف”
چاند کی چاند نی میں وہ سڑک پر مسجد کی طرف بڑھ رہا تھا
“آؤ بھلائی کی طرف”
پرسکون ہوئے دل میں اطمینان لیے مسکرا رہا تھا
“نماز نیند سے بہتر ہے “
اس نے اس بات کو محسوس کر لیا تھا
“اللہ سب سے بڑا ہے”
اسی اللہ نے آج اس کے آنسوؤں ک سبب اس کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا تھا
“اس کے سوا کوئی معبود نہیں”
چاند تاروں سے جگمگاتے آسمان کی کھلی چھت کے نیچے وہ ساجد بن کر سجدے میں اپنے رب بڑائی بیان کر رہا تھا…
اور مسجد میں واٹر کولر کے ساتھ پڑی پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھا ارسل زنجیر سے بندھے گلاس سے پانی پیتے ہوئے یہ سب دیکھ کر مسکرا رہا تھا
(Q-47) ازقلم :دلاور خان
(In order to get your content published, kindly submit us at page inbox or email us at qlsqamc@gmail.com)