صارب : میں نے کل پارسا دیکھا ۔
عمر : خدا کا یا محبت کا ؟
صارب : پارسا میں تفریق کہاں سے آ گئی ؟ پارسا تو بس خدا کے ہوتے ہیں نا !
عمر : نہیں جناب ۔ خدا کے پارسا تو بس نظر آتے ہیں ۔
صارب : تو محبت کے پارسا کا کیا ؟
عمر : زندہ جسم میں سرد دل اور مردہ روح لیے لوگ ۔ یہ محبت کے قیام میں ہی اپنی حالت خراب کر بیٹھتے ہیں ۔
صارب : تو اس میں ان کی اپنی کوتاہی ہے۔اس میں محبوب کا کیا قصور !
عمر : محبوب کا قصور کبھی ہوا ہی نہیں ۔ بس ایک محبوب ہی کا قصور نہیں ہوتا ۔جو اصل محبوب ہوتا ہے وہ روک لیتا ہے اتنا لمبا قیام کرنے سے ۔ جیسے خدا اپنے پارساؤں کو روک دیتا ہے۔
صارب : یہ باتیں غیر معقول ہیں ۔
عمر : محبت کی باتیں معقول کیسے ہو سکتی ہیں ؟ جنہیں محبت کا میم ہی مخفی بنا دے وہ باتیں معقول کیسے ہوں گی ۔
صارب : تو جانے دو اس محبت وحبت کو ۔تم کیوں پڑے ہو اس کے پیچھے ۔
عمر : صاحب جنازے لازماً قبرستان جاتے ہوتے ہیں ‘ کبھی سنا ہے کہ قبرستاں کوئی جنازہ لینے آ گیا کو ؟ قبرستان جنازوں پر لازم و ملزوم ہے اسی طرح عاشق بھی رسوائی کے قبرستان میں دفناۓ جاتے ہیں۔
صارب : تمہارا اس نے دماغی توازن خراب کر دیا ہے ۔
عمر : شکر ہے بس یہ کیا ہےورنہ ابھی وہ ایک کی زندگی بھی خراب کر رہی ہے اور میں وہ نہیں ہوں ۔
صارب : یہ تو اہل ظرف کا وطیرا نہیں ہوتا جو تمہارا ہے۔
عمر : تم بتا دو کیا روش ہوتی ہے اہل محبت کی!
صارب : اہل محبت محبوب کے داعی ہوتے ہیں ‘ انہیں حصول کی خواہش نہیں ہوتی ‘ انہیں وفا ملے یا جفا ان کا رویہ ہمیشہ معتبر ہوتا ہے ۔
عمر : بس اسی وجہ سے اس کی ساری باتیں چپ چاپ جزب کر لی تھی اور ہر چیز کا اقرار کر لیا تھا ۔
صارب : تو بس چھوڑ دو اس کا قصہ یا اسے معاف کر دو یا اپنی غلطی تسلیم کر لو ۔
عمر : غلطی تو تسلیم کر چکا ہوں ۔ جہاں تک چھوڑنے کی بات ہے وہ ممکن نہیں ۔ قبلے ہر روز نہیں بدلے جاتے ۔
صارب : مگر قبلوں کا احترام لازم ہوتا ہے ۔
عمر : بس اسی وجہ سے تو چپ ہوں کہ اس نے کہا چپ اور میں چپ ۔ اس نے کہا بس اور بس ۔
صارب : تو بس تم کوئی اور دیکھ لو !
عمر : یکتائی کی بینائی شرک نہیں کرتی اور جب شرک کر لے وہ بینائی یکتائی کی بینائی نہیں رہتی ۔
صارب : تم فضول میں اپنی کوششیں بے ثمر کر رہے ہو !
عمر : ابھی خود لیکچر دیا کہ حصول نہیں دیکھا جاتا اور اب خود ہی نتیجہ پر پہنچ گئے ! واہ !
صارب : ویسے تمہیں بھی تو اس کے حسن سے محبت تھی ؟
عمر : محبت میں حسن پہلا زینہ ہوتا ہے جو کہ میں نے عبور کیا تھا اس کے بعد اس عورت کی زبان ‘ اس کا کردار ‘ اس کی باتیں ‘ اس کا سلوک اس محبت کو مضبوط کرتا ہے مگر مری بار اس نے منہ سے فقط غلاظت اگلی وہ بھی لوگوں کے سامنے !
صارب : تو محبت اب ختم ہو جانے چاہیے تھی !
عمر : میں بھی اسی سوچ میں ہوں مگر سوچ ہے کہ یہاں تک جاتی ہی نہیں ۔ عورت فریب کے ساتھ مرد کو زہنی مفلوج بھی کر جاتی ہے ۔
صارب : ایسی عورت کو پھر یاد کر کے خود کو اذیت کیوں دینا ؟
عمر : نہیں اب اذیت نہیں ہوتی ۔ اب میں اس کے حسن پر غزلیں نہیں لکھتا ‘ اب میں افسانوں میں اسے اپنی ماں کے بعد سب سے حسین عورت نہیں کہتا ‘ میں خیالات اس کے لیے ضائع نہیں کرتا ‘ اب مجھ اس کا لباس گل فروشوں کی دکان بند کرتا نظر نہیں آتا ‘ اب مجھے اس کی آنکھوں میں جھوٹ کی ندیاں بہتی نظر آتی ہیں ‘ اب میں چلتے چلتے اسے نہیں دیکھا کرتا ‘ اب میں چاۓ اس شدت سے نہیں پیتا ‘ اب وہ کچھ بولے بھی تو کانوں کی حدود اس کی آواز کو داخل نہیں ہونے دیتی اور نا ہی میں ایسے پارسا کا داعی ہوں جس کی حقیقت سیاہ راتوں کو معلوم ہے ۔
صارب : وہ دیکھو عمیرہ جا رہی ہے ۔
عمر : کہاں ؟
صارب : وہ سفید لباس میں !
عمر : یہ عمیرہ نہیں ہے ۔ یہ تو بس اس کا وجود ہے ۔ اس کی روح تو کب سے اس کے جسم سے پرواز کر چکی ہے ۔
صارب : تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو !
عمر : محبت میں بیوپار کرنے والے ابد تک بیزار ہو جاتے ہیں اور روحیں بیوپاریوں کے پاس نہیں رہا کرتی اور نا ہی بیزاروں کے پاس ۔
صارب : تو جو ہوا تم اسے معاف کر دو !
عمر : محبت میں مطلب پرست اور بے وفا لوگ مجرم ہوتے ہیں ۔ ان مجرموں کی عدالت ان کا اپنا ضمیر ہوتا ہے ۔ یہ عدالت انہیں عمر بھر کا ملال سزا کے طور پر سنا دیتی ہے ۔
صارب : تو بس یہ سزا کافی نہیں ؟
عمر : ہاں کافی ہے مگر وہ اذیت سہہ نہیں سکے گی ۔
صارب : تمہیں ابھی بھی عمیرہ کی فکر ہے ؟
عمر : نہیں میری بلا بھی پناہ مانگے عمیرہ سے !
صارب : تو پھر ؟
عمر : مجھے اپنی محبت کی فکر ہے ۔ وہ محبت جو میں نے ایک عرصہ دراز خود کو روکنے کے بعد کی تھی ۔ وہ محبت جسے میں نے لفظوں میں پرویا تھا ۔ وہ محبت جس کی گواہ وہ طاق راتیں ہے جب چاند بھی مرے حالات کے گوشوں سے کوسوں دور تھا ۔
صارب : محبت فکر کی قید سے آزاد ہوتی ہے سو تم بھی اسے آزاد کر دو ۔
عمر : کر دیا آزاد ۔ وہ دیکھو وہ اڑ گئی محبت ۔ اور آزاد کروں یا بس ؟ بس !
(Zain ul Abideen)