ٰیکم جنوری دو ہزار سولہ،رات دس بج کر سترہ منٹ۔
آج صبح یونیورسٹی کیفے ٹیریا میں ایک لڑکی ملی۔تانیہ/ہانیہ پتا نہیں کیا اس طرح کا کوئی نام تھا اس کا۔بتا رہی تھی کہ میرے افسانوں کی دلدادہ ہے اور فیس بک پر مجھے فالو بھی کرتی ہے۔میں نے مروتاّ چائے کی پیش کش کی جو اس نے قبول کر لی۔دیر تلک وہ میرے افسانوں پر بات کرتی رہی۔اس نے قریب قریب میرے سب افسانے پڑھ رکھے تھے۔چائے کا بل البتہ اس نے اصرار کرکے خود ادا کیا۔
پندرہ جنوری،دو ہزار سولہ۔رات نو بج کر اکیاون منٹ۔
میرے اور ہانیہ کے درمیان پندرہ دن پہلے شروع ہونے والا سفر دوستی میں بدل گیا ہے۔اسے خود بھی افسانے لکھنے کا شوق ہے۔آج اس نے اپنی دو تحاریر مجھے دکھائیں۔افسانے تو نہیں کہہ سکتا ہاں یہ ضرور ہے کہ اس میں کہانی کہنے کا فن موجود ہے۔بس پالش کی ضرورت ہے۔کہہ رہی تھی آج اسے ذرا جلدی جانا ہے بعد میں ان دو پر تفصیلی مکالمہ کر لیں گے۔
سات مارچ،دو ہزار سولہ رات گیارہ بج کر چوالیس منٹ۔
آج جب میں یونیورسٹی پہنچا تو وہ مجھے پارکنگ کے پاس کھڑی ملی۔اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی جسے اس وقت میں نہ سمجھ پایا۔مجھے لیے وہ سیدھا کیفے ٹیریا پہنچی۔کیفے میں اس وقت زیادہ رش نہیں تھا۔میں اس وقت چونکا جب میز پر کیک سرو کیا گیا۔
“ہیپی برتھ ڈے۔”
اس نے آگے ہوکے میرے کان میں کہا تھا۔میں نے اس کی طرف دیکھا۔اس کے چہرے پر ایک معصوم سی دلکش مسکراہٹ تھی اور وہ برابر مجھے تکے جارہی تھی۔سچ بتاؤں تو مجھے خود بھی یاد نہیں تھا کہ آج میرا برتھ ڈے ہے۔یہ بات میں نے اس سے بھی کی۔وہ بس مسکرا کر دیکھتی رہی،
ٹیبل چھوڑنے سے پہلے اس نے اپنے پرس میں سے ایک خوبصورت سا گفٹ پیک نکالا اور میری طرف بڑھا دیا۔بہت ہی خوبصورت قلم تھا اس میں۔یہی جس سے میں اب لکھ رہا ہوں۔
ستائیس اپریل،دو ہزار سولہ رات نو بج کر چالیس منٹ۔
ہمارے درمیان یکم جنوری سے شروع ہونے والا رشتہ ایک الوہی جذبے میں بدل گیا ہے۔”ہمارے” کا لفظ اس لیے لکھ رہا ہوں کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ وہ بھی مجھ سے محبت کرتی ہے۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو آج کال پر میرے ”I Love You” بولنے کے جواب میں وہ بار بار مجھ سے یہ نہ کہتی “کیا واقعی۔؟”، “آپ مذاق تو نہیں کر رہے۔؟” ، “ڈو یو رئیلی لو می۔؟؟؟؟”
وہ ہائیپر ایکسائٹڈ ہورہی تھی جبھی تو زیادہ بات نہ کر پائی تھی۔البتہ اس کا لہجہ سب کچھ کہہ گیا تھا۔
“Yes meri jaan! I really Love you the most.”
یکم مئی،دو ہزار سولہ۔رات ساڑھے دس بجے۔
ابھی آدھا گھنٹہ پہلے اس کا میسج ۤآیا ہے۔لکھا ہے کہ وہ مجھ سے بہت زیادہ محبت کرتی ہے لیکن میرے ساتھ شادی نہیں کرسکتی۔اس نے یہ بھی لکھا کہ جنت میں اگر اللہ تعالٰی سے کچھ مانگے گی تو میرا ساتھ مانگے گی۔
پتا نہیں اس نے ایسا کیوں لکھا کہ وہ مجھ سے شادی نہیں کرسکتی۔میں نے پانچ چھ میسج بھی کیے لیکن کوئیی جواب نہ آیا۔۔کال بھی تو نہیں سن رہی۔خیر۔صبح پوچھ لوں گا اس سے۔مذاق ہی کر رہی ہوگی۔
تین مئی،دو ہزار سولہ۔رات گیارہ بجے۔
آج یونیوسٹی میں ایگزوٹک فلارز والی کیاریوں کے عقب میں موجود نرم و نازک گھاس کے ٹکڑے پر وہ میری گود میں سر ڈالے دونوں ہاتھوں سے میرا ہاتھ تھامے دیر تلک روتی رہی۔مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے اس کے آنسو پونچھتے میری انگلیوں کے پورے بھی رونے لگے ہوں۔۔سچ کہوں تو میری اپنی آنکھیں بھی نم ہوگئی تھیں۔۔جب بھی وجہ پوچھتا یا دلاسہ دینے کی کوشش کرتا وہ اوپر میرے چہرے کی طرف دیکھتی اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دیتی۔اس دوران میرے ہاتھ پر اس کی گرفت اور بھی مضبوط ہوجاتی تھی۔
چار مئی،دو ہزار سولہ۔رات نو بج کر بیس منٹ۔
آج اس کا رویہ کچھ بدلا بدلا سا لگا۔کہہ رہی تھی کہ میں اسے بھول جاؤں۔اور یہ کہ وہ میرے قابل نہیں ہے۔لیکن اس کی آنکھیں۔..وہ آنکھیں بھی تو نہیں ملا رہی تھی۔یا شائد اس کی آنکھیں اس کے لفظوں کا ساتھ دینے کے لیے رضامند نہیں تھیں۔میں بس حیران و پریشان کھڑا اسے دیکھتا رہا۔شائد کسی کی نظر لگ گئی ہے ہماری محبت کو۔
چھ مئی،دو ہزار سولہ،رات دو بج کر پندرہ منٹ۔
آج وہ یونیورسٹی نہیں آئی البتہ اس کا ایک میسج ضرور آیا۔میسج پڑھ کر میرا دماغ بھک سے اڑ گیا۔لکھا تھا کہ وہ اس وقت اپنی جان مسٹر فاروقی کے ساتھ ڈیٹ پر ہے۔وہ اور اس کی جان ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں اور مجھ میں اگر ذرا سی بھی شرم ہے تو دوبارہ اس سے کنٹیکٹ کی کوشش نہ کروں اور نہ ہی کبھی اس کے سامنے آؤں۔نیز یہ کہ اس کی جان نے بھی مجھے میسج کردیا ہے۔بائے۔
میں نے دیکھا ایک میسج اور بھی تھا۔ان جان نمبر سے۔اس میں بھی اسی سے ملتے جلتے الفاظ تھے۔میں نے فوراّ کال بیک کی۔لڑکا ہی تھا۔دیر تک میرے سر میں درد رہا۔کچھ سجھائی ہی نہییں دے رہا تھا۔اب بھی بڑی مشکل سے یہ لکھ رہا ہوں۔
بیس جون،دو ہزار سولہ۔رات پونے گیارہ بجے۔
آج دیر تک اس سے چییٹ ہوتی رہی۔اس نے خود ہی میسج کیا۔۔میرے بارے میں پریشان ہورہی تھی۔میں نے کہہ دیا کہ اپنے مسٹر فاروقی کے ساتھ انجوائے کرے اور میرے بارے میں فکر مند نہ ہو۔
اٹھارہ دسمبر،دو ہزار سولہ۔رات دس بجے۔
آج کافی عرصے بعد اس نے میسج کیا۔بتا رہی تھی کہ اسے دو دن سے نیند نہیں آئی اور وہ مسلسل روتی رہی ہے،
میں نے تڑپ کر وجہ پوچھی تو کہنے لگی کہ وہ اسے چھوڑ کے چلا گیا ہے۔میں نے اسے تسلی دی اور یہ بھی کہہ دیا کہ اگر وہ آنا چاہے تو میں آج بھی اس کا ہاتھ تھام سکتا ہوں۔اس سے بڑھ کر کیا کرسکتا تھا بھلا۔!
بائیس دسمبر،دو ہزار سولہ رات نو بج کر پچپن منٹ۔
کل اس نے اپنے بارے میں ایک دل دہلا دینے والے سچ سے آگاہ کیا ہے۔ایسا سچ جسے جان کر ساری رات مجھے نیند نہیں آئی۔
اس نے کہا کہ لڑکی اور لڑکے کے بیچ تعلقات کی آخری حد بھی وہ کئی بار پار چکی ہے اور ایسا پچھلے دو سالوں سے ہوتا آیا ہے۔
اس نے یہ بھی کہا کہ وہ مجھ سے اب کچھ نہیں چھپانا چاہتی۔اس نے بتایا کہ دو سال قبل ہونے والی ایک غلطی کو اسے مجبوراّ کیری کرنا پڑا کیوں کہ اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔اس نے التجا کی کہ اب جب وہ کسی کے بھی قابل نہیں رہی،میں اس کا ہاتھ تھام لوں۔
سچ بتاؤں تو میرا دماغ پھٹا جارہا تھا۔اس قدر گھٹیا اور ذلیل حرکت اور وہ بھی پچھلے دو سالوں سے مسلسل۔مجھے فیصلہ کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی تھی۔
آٹھ فروری،دو ہزار بیس۔شام چھ بجے۔پریزینٹ ڈے۔
اس لڑکی کی شادی ہوگئی ہے اور ماشا اللہ اس کا ایک بیٹا بھی ہے۔میرا آج بھی اس سے مسلسل رابطہ ہے۔اس کے شوہر کو ساری کہانی کا علم ہے لیکن وہ اس سے پھر بھی بے حد محبت کرتا ہے۔
لیں جی۔۔قدموں کی چاپ بتا رہی ہے بیگم میری طرف ہی آرہی ہے۔۔یقیناّ اس کے ہاتھوں میں چائے کے دو کپ ہوں گے۔اس وقت چائے پینے کی میری عادت جو ہے۔یہ ڈائری کافی عرصے بعد آج میرے ہاتھ لگی ہے اور چائے پی کر سب سے پہلا بندوبست اسی کا کرتا ہوں مبادا یہ نہ ہو کہ اس کی نظر پڑ جائے اور برسوں پہلے کی کڑواہٹ اس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔میں سب کچھ دیکھ سکتا ہوں لیکن اپنی جان کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔نہ۔
I love You meri jaan.
I love You the most.
طلحہ خان
کیو فارٹی ایٹ.