افسردہ
قصہ شب کا بدلا ہے، نہ صبح حال بدلا ہے
بدلنےکو ہے کیا بدلا،بس ایک سال بدلا ہے
دلوں میں بغض باقی ہے،تشدد ہے زباں اب بھی
محبت کی سسک باقی،تنفّر جاوداں اب بھی
ہوۓ پر میکدے سارے،نمازی بے نشاں اب بھی
تڑپتی مسجدیں باقی، روتی ہے اذاں اب بھی
کہیں ساجدبھی باقی ہیں،کہیں واعظ بھی ہیں شاید
مگر افکار مبہم ہیں،عقیدے ہیں گماں اب بھی
سخاوت نا شنیدہ ہے،تشکّر سر بریدہ ہے
یہاں ثروت ابھی پیہم،غربت ہے عیاں اب بھی
لٹیرےہیں وہی رہبر، وہی جلّاد حاکم ہیں
کہیں مالک ہے ظالم گر،تو بے ایمان خادم ہیں
لہو رنگ ہیں کہیں گلیاں،کہیں مقتل بنی راہیں
کہی عصمت بنی سستی،کہیں اٹھتی ہیں بس آہیں
استیصال بدلا ہے،نہ استحصال بدلا ہے
بدلنے کو ہے کیا بدلا،بس ایک سال بدلا ہے
ریحان رانا
2nd year