غریبوں کا صرف اللہ ہے!
“عیر کا جوڑا کب لے کر دیں گے بابا؟” اس نے اپنے باپ سے بہت مان سے پوچھا!
“میری گڑیا کس رنگ کا جوڑا پہنے گی؟” باپ نی اس کے سوال سے لطف اندوز ہوتے ہوئے پوچھا!
“تیز نیلے رنگ کا”.اس نے جھٹ سے جواب دیا جیسے وہ سب کچھ بہت پہلے سے سوچ کر بیٹھی ہو۔
کل پھل بیچ کر جلدی آجاوں گا تو باپ بیٹی چلیں گے!باپ کی اس بات پر وہ جھوم اٹھی.
“میری گڑیا کس رنگ کا جوڑا پہنے گی؟” باپ نی اس کے سوال سے لطف اندوز ہوتے ہوئے پوچھا!
“تیز نیلے رنگ کا”.اس نے جھٹ سے جواب دیا جیسے وہ سب کچھ بہت پہلے سے سوچ کر بیٹھی ہو۔
کل پھل بیچ کر جلدی آجاوں گا تو باپ بیٹی چلیں گے!باپ کی اس بات پر وہ جھوم اٹھی.
اسلم ایک پھل فروش تھا ۔ 4 بچوں،1 بیوی اور ایک بوڑھی ماں کی کفالت اس کے ذمہ تھی۔ جب سے پھل کی قیمتیں کچھ بڑھی تھیں تو گھر میں مہینے میں ایک بار بچوں کے پسند کا کھانا بن جاتا تھا۔
وہ معمول کے مطابق پھل کی ریڑھی لے کر چوک کی سب سے رش والی جگہ پر کھڑا ہوگیا!
ابھی 20 منٹ ہی گزرے تھے کہ اس کو گلشیر ،جو کے اس کے ساتھ ہی جلیبیوں کی دکان لگاتا تھا،نے بتایا کے آج عوام نے پھل والوں کی ہڑتال کی ہوئ ہے۔اسلم نے اس کی بات پر غور نہیں کیا اور گاہکوںکا انتظار کرنے لگا۔ پریشانی تب شروع ہوئ جب سیٹھ عامراپنی چمچماتی گاڑی میں بغیر کچھ خریدے وہاں سی گزر گیا! پورا دن وہ دل کو مختلف بہانوںسے بھلاتا رہاپر اگر اس طرح دل بہلانے سے گھر کا گزارہ چل سکتا تو شاید وہ سب سی زیادہ خوشحال ہوتا!
وہ معمول کے مطابق پھل کی ریڑھی لے کر چوک کی سب سے رش والی جگہ پر کھڑا ہوگیا!
ابھی 20 منٹ ہی گزرے تھے کہ اس کو گلشیر ،جو کے اس کے ساتھ ہی جلیبیوں کی دکان لگاتا تھا،نے بتایا کے آج عوام نے پھل والوں کی ہڑتال کی ہوئ ہے۔اسلم نے اس کی بات پر غور نہیں کیا اور گاہکوںکا انتظار کرنے لگا۔ پریشانی تب شروع ہوئ جب سیٹھ عامراپنی چمچماتی گاڑی میں بغیر کچھ خریدے وہاں سی گزر گیا! پورا دن وہ دل کو مختلف بہانوںسے بھلاتا رہاپر اگر اس طرح دل بہلانے سے گھر کا گزارہ چل سکتا تو شاید وہ سب سی زیادہ خوشحال ہوتا!
شام کے 6:30 بجے وہ گھر لوٹا تو اس کی بیٹی نہا دھو کر تیار کھڑی تھی۔اپنے باپ کو ریکھ کر وہ خوشی سے جھومنے لگی!
“بابا میں تیار ہوں چلیں؟” اس نے مایوسی سے اپنی بیٹی کو دیکھا اور بولا “ہم کل چلیں گے”
جہاں نیلے آسمان اور اس آسمان کے مالک نے ایک غریب کا دل دکھتے دیکھا تھا وہیں ایک ننھی بچی کے خواب مرتے دیکھے تھے۔
“ہر سال آپ ایسے کرتے ہیں” وہ یے کہ کر دوڑ گئ اور اسلم صرف یہ کہ سکا “غریبوںکا صرف اللہ ہے”
“بابا میں تیار ہوں چلیں؟” اس نے مایوسی سے اپنی بیٹی کو دیکھا اور بولا “ہم کل چلیں گے”
جہاں نیلے آسمان اور اس آسمان کے مالک نے ایک غریب کا دل دکھتے دیکھا تھا وہیں ایک ننھی بچی کے خواب مرتے دیکھے تھے۔
“ہر سال آپ ایسے کرتے ہیں” وہ یے کہ کر دوڑ گئ اور اسلم صرف یہ کہ سکا “غریبوںکا صرف اللہ ہے”
Sara Ahmad
1st year (Q-47)