پھانس
وہ بہت خوبصورت تھی, بے مثال تھی, ایسا لگتا تھا جیسے اسے بنانے کیلیے
خدا نے لفظ ‘کن’ کا استعمال مناسب نہیں سمجھا بلکہ جنت سے حوروں کا خمیر
لے کر اس میں فردوس کی خوشبوئیں اور رنگینیاں ملا کر فرصت میں دھیان لگا
کر بنایا ہو. وہ کسی مصور کا شاہکار تھی جسے اس نے کسی اپسراء کا خیال دل
میں رکھ کر اپنے فن کا بہترین مظاہرہ کرتے ہوۓ کاغذ پر اتار دیا ہو اور
وہ چھو کر کے کاغذ سے چھلانگ لگا کر باہر نکل آئی ہو. بڑی بڑی گہری کالی
آنکھیں, لمبے اور گھنے سیاہ بال, روئی کی طرح سفید گداز گال, شوخی بھری
مہین سی آواز, اور ہونٹ تو جیسے کسی مصور نے قلم سے باریک باریک لکیریں
بنا دی ہوں. ایسا کبھی نہ ہوا کہ اسے دیکھ کر کسی نے نظر انداز کر دیا
ہو, اسے ایک بار دیکھنے سے گویا دوسری مرتبہ دیکھنا فرض ہو جاتا تھا. اس
کے جسم کے ہر ہر زاویے بیسیوں نگاہیں اٹکی ہوتی تھیں. جب وہ کلاس میں
داخل ہوتی تو سینکڑوں نگاہیں اس کے بدن سے لپٹ جاتیں اور ان نگاہوں کی
حرکت اس کی حرکت سےشروط ہو جاتی. رعنائیوں اور خوبصورتیوں کی حدود اس پر
تمام ہوتی تھیں. جب کلاس کے لڑکے بانکے کلاس کی لڑکیوں کا تذکرہ کرتے تو
اختتامی بات ہمیسشہ اسی کی ہوتی تھی. وہ معصوم تھی, پاکیزہ, چڑیا کے
نازک سے دل والی, الہڑ مٹیار, کاغذ کی گڑیا کہ جسے لوگ چھونے سے ڈریں کہ
کہیں ٹوٹ نہ جاۓ. اس کا دل شفاف تھا کہ جس پر ابھی محبت کی دیوی نے ستم
آزمائی نہیں کی تھی. وہ ایک انار تھی, اور اس کے کئی بیمار تھے. انہیں
بیماروں کی فہرست کے کہیں آخر میں وہ بھی آتا تھا.
وہ معمولی شکل و صورت والا لڑکا تھا, حساس تھا, سمجھدار بھی تھا
لیکن اس معاملے میں اس کی عقل ماری گئی تھی. اسے اپنی کم تری اور کم
مائیگی کا شدید احساس تھا. اسے پتا تھا کہ وہ سراب کے پیچھے بھاگ رہا ہے,
جس سے اسے سواۓ تھکان اور پیاس کے کچھ نہیں ملنے والا. بے وقوف بچے کی
طرح ہاتھ اوپر کر کے اچک کر چاند پکڑنے کی کوشش کر رہا ہے. کسی غریب بچے
کی طرح مہنگی دکان میں رکھے بہت خوبصورت کھلونے کو ایک نا ایک دن پا لینے
کی چاہت لیے ہوۓ تھا حالانکہ اس کی جیب میں سواۓ حسرتوں کے اور کچھ نہ
تھا. اسے اس بات کا بھی علم تھا کہ اس کا انجام اس پروانے کی طرح ہوگا جو
شمع کو پانے کیلیے اس میں کود جاتا ہے اور جل کر بھسم ہو جاتا ہے. وہ یہ
بھی جانتا تھا کہ پروانہ مر جاتا ہے لیکن شمع بدستور جلتی رہتی ہے, مزید
پروانوں کو خاکستر کرنے کیلیے. اسے دور سے دیکھنے والوں میں وہ بھی تھا,
لیکن جب وہ پاس سے گزرتی, ہر چند دیگر لڑکے اسے ٹکٹکی باندھ کر بے باکی
سے تاکتے رہتے تھے, وہ اپنی نگاہیں نہ اٹھا پاتا, گویا کسی نے منوں وزن
اس کی پلکوں پر دھر دیا ہو. اور اگر کبھی نزدیک سے نادانستہ طور پر نظر
پڑ بھی جاتی تو فورا اس کے ملائی جیسے ملائم گالوں سے پھسل کر مڑ جاتی.
دو ایک بار تو وہ اسکی گھنی کماندار پلکوں میں اٹک گیا اور اس کیلیے
نکلنا مشکل ہوگیا لیکن اس کا ضمیر اسے واپس کھینچ لایا.
اسے پتا تھا کہ اسے دیکھنے والے بہت ہیں لہذا وہ ان پر دھیان نہ
دیتی اور بے اعتنائی سے سیدھی نظروں اور سپاٹ چہرہ لیے گزر جاتی. اسکی بے
اعتنائی کی وجہ شاید یہ تھی کہ ان میں سے کوئی بھی اسکا آئیڈیل کہلانے کے
لائق نہ تھا. وہ جانتی تھی کہ دو آنکھیں ایسی بھی ہیں جو اسے دیکھتے ہی
جھک کر سلامی دیتی ہیں اور جھکی رہتی ہیں. یہ بات اسے خوشگوار محسوس ہوتی
تھی. ایک مقدس سا, عزت دار محترم سا احساس ہوتا تھا. ایک لمحے کیلیے وہ
بھول جاتی کہ اس نے ایک آئیڈیل اپنی تخیل میں تراشا ہوا ہے اور اس کا دل
ان جھکی نظروں کی وکالت کرنے لگتا لیکن تمکنت اور حسن کا زعم اس کے دل کو
گنگ کر دیتے. کئی بار اس کے کورے دل میں گہرے جزبات نے سر اٹھانے کی کوشش
کی لیکن بے نیازی نے انہیں بے دردی سے کچل دیا. وہ اتنی کم ظرف نہ تھی کہ
اس کی معمولی شکل و صورت کی وجہ سے اسے اپنے امیدواروں کی فہرست سے خارج
کر دیتی. اسے بس وہ چاہیے تھا جو اس کے آئیڈل جیسا ہو, لیکن شاید اسے
خبر نہ تھی کہ آئیڈیل اسے ہی کہتے ہیں جو ریئل نہیں ہوتا.
“یار کیا حسن محنت سے ملتا ہے؟” اس دن وہ راشد کے سامنے پھٹ پڑا.
“نہیں.”
“تو اسے غرور کس بات کا ہے؟اس میں اس کا کتساب تو شامل نہیں. ”
“وہ مغرور نہیں ہے ساحر, بے وقوف ہے, بچپن میں رہتی ہے, الہڑ ہے,
پریکٹیکل نہیں ہے, ہنستی مسکراتی نازک سی لڑکی ہے بس. اور میں تو یہی
کہوں گا” اس نے ہنستے ہوئے کہا
” کہ
دل_نازک پہ اس کے رحم آتا ہے مجھے غالب
نہ کر سرگرم اس کافر کو الفت آزمانے میں. “
“اچھا تو تمہیں مجھ پر رحم نہیں آتا. یار تجھے پتا ہے میرے پاس وقت کم
ہے. میں حسرتوں اور تمناؤں کا بوجھ لیے نہیں جانا چاہتا. ” یہ کہتے کہتے
اس کی آنکھوں کی خشکیوں میں پانی کے چھوٹے چھوٹے جزیرے امڈ آۓ. راشد نے
اسے گلے لگا لیا اور بانہوں میں زور سے دبوچ کر کہنے لگا “میرے جگر!
تمہاری بات ہزار درجہ صحیح ہے لیکن کیا تم اسے جاتے جاتے جوگ دینا چاہتے
ہو؟ تم کیا چاہتے ہو کہ وہ ہنسنا بند کر دے, اسکی چہک مار کر تمہیں تو
کچھ نہیں ملنے والا نا! یہ تو سرا سر خود غرضی ہے. ”
اسے بات سمجھ آ گئی, وہ دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا اور آہستہ
آہستہ گھسٹتا ہوا نیچے بیٹھ گیا. وہ گھٹنوں میں سر رکھ کر رونے لگا. اس
نے اپنے آپ کو کوسنا شروع کردیا کہ کیوں وہ خود غرضی پر اتر آیا تھا. وہ
پہلے تو کبھی ایسا نہ تھا. اس نے اپنی زندگی دوستوں اور گھر والوں کیلیے
تیاگ دی تھی تو اب کیوں وہ اپنے اور صرف اپنے بارے میں سوچ رہا تھا؟ وہ
گھنٹوں اپنے آپ کو ملامت کرتا رہا. اس لمبی کیتھارسس کے بعد اسے سکون
ملا. اس نے اس کا خیال جھٹکنے کا فیصلہ کر لیا. اس کا عزم بہت مضبوط تھا.
وہ سمجھوتے کی زنجیروں میں تین ہفتے جکڑا رہا. اس کے جانے کا وقت قریب سے
قریب تر آ رہا تھا. وہ اکثر کلاس سے غائب ہوتا. وہ تھوڑا سا پریشان ہوئی
اور یہ پریشانی رفتہ رفتہ بڑھنے لگی. اس نے تین ہفتے صبر کا دامن نہ
چھوڑا. پھر اس روز کچھ ایسا ہوا کہ صبر کے تمام بند چھوٹ گئے. مصلحتوں
اور سمجھوتوں کی بیڑیاں ریزہ ریزہ ہو گئیں. وہ Gala Day پر تیز ہرے رنگ
کے جوڑے میں آئی تھی. تیز دھانی دوپٹے نے اس کا سر ڈھانپا ہوا تھا. اس کے
کپڑوں کے چھوٹے چھوٹے سوراخوں سے حسن چھن چھن کر باہر نکل رہا تھا. یوں
لگتا تھا کسی نے تمام جنگلوں کی رعنائیاں رنگینیاں نچوڑ کر کسی کانچ کے
پیالے میں بھر دی ہوں. ہیرے نے زمرد اوڑھ لیا ہو, کشمیر نے پنجاب لپیٹ
لیا ہو. اس کا کرتا قدرے تنگ تھا جس کی وجہ سے اس کے جسم کے نشیب و فراز
نمایاں تھے. اسے دیکھتے ہی ساحر مسحور ہو گیا. ہر چند اس نے خود کو روکے
رکھا لیکن اندر کا دکھ باہر آ ہی گیا. رات کا وقت تھا. جب وہ اس لمبی
دیوار کے پاس سے گزرنے لگی تو اندھیرے سے آواز آئی
اک دن تو سنے گا کہ تیرے شہر میں
تو جس سے بد گماں تھا وہ دیوانہ مر گیا
وہ ایک لمحے کو رکی اور بنا پلٹے تیز تیز قدموں سے آگے بڑھ گئی.
ساحر وہاں مزید نہ رکا. اس کی طبیعت خراب ہو رہی تھی. اس نے راشد
کو فون کیا اور اس کے ساتھ ہاسٹل واپس آگیا. وہ اگلا پورا ہفتہ غائب رہا.
وہ پریشان رہی, وہ ایک شعر اس کے ذہن و دل پر گرز برساتا رہا. وہ خود کو
تسلیاں دیتے ہوۓ کہتی “مرتا ہے تو مرے, مجھے کیا, میرا کونسا سگا ہے وہ.
” اور پھر سے پریشان ہو جاتی. اگلے روز کلاس میں اناؤنسمینٹ ہو رہی تھی
کہ ” ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ ہمارا کلاس فیلو ساحر اب اس دنیا میں نہیں
رہا. اسے کینسر تھا, انا للہ و انّا الیہ راجعون. اس کی مغفرت کی دعا
کریں اور اس کی غلطیاں معاف کر دیں. ” کلاس پر سکتہ طاری ہو گیا. ندامت
اور دکھ نے اپنے نوکیلے پنجے اس کے سینے میں گاڑ دیے. وہ تکلیف سے جھلا
کر اٹھی اور تیز تیز قدم اٹھاتی کلاس سے نکل گئی. اس کے نئے جوتے پاؤں سے
مانوس نہیں تھے. اسے چلنے میں تکلیف ہو رہی تھی. وہ پھر بھی چلتی رہی.
اس کی رفتار تیز سے تیز تر ہو گئی تھی. اب وہ تقریباً دوڑنے لگی تھی. جب
وہ وارڈ پہنچی تو اس کے پاؤں میں نیل پڑ چکے تھے. اس وقت اگر ساحر ہوتا
تو اس کے پاؤں پر سب کچھ نوچھاور کر دیتا. لیکن وہ نہیں تھا. وہ تو جا
چکا تھا. اس کے کمرے میں چند لوگ تھے. وہ ان کی پروا کیے بغیر اندر داخل
ہو گئی. اسے ایک نظر دیکھا اور گھٹنوں کے بل زور سے زمین پر بیٹھ گئی. اس
کے نین کٹوروں سے موتیوں کی آبشار نکل پڑی. موتی نکلتے, گلناری گالوں پر
خاموشی سے لڑھکتے, ٹھوڑی پر ایک ساعت کو ٹھہرتے اور پھر گر کر چکنا چور
ہو جاتے. ان کے ٹوٹنے کی آواز سننے والا کوئی نہ تھا.
First Year (Q47)