ایک ریڑھی بردار بنجر زمین پر چل رہا تھا۔۔قحط کا ذمانہ تھا۔ آسمان خشک ہو چکا تھا۔۔ وہ آدمی جس کو پہلے کبھی کچھ نہ کچھ بچ جاتا تھا۔۔ اتنا کہ گھر کا چُولہا جل سکے! جو بھی کماتا بیوی کی ہتھیلی پہ رکھ دیتا اور گھر کا چولہا جل جاتا! بچوں کا پیٹ بھر جاتا!! اب زمانہ تھا قحط کا اور نہ بارش تھی نہ بادل۔۔۔ نہ کھانے کو کھانا تھا نہ پینے کو پانی! وہ ریڑھی بردار خالی ہاتھ اپنے گھر کی اوڑھ بڑھ رہا تھا! بنجر زمین پر اپنے بنجر خواب لیئے ! خشک آسمان تلے اپنی خشک امیدیں لیئے گھر کی جانب بڑھ رھا تھا!!! جو پھلُ، اناج تھا ختم ہو چکا تھا! نہ خریدنے کو کچھ تھا اور نہ بیچنے کو! آخر چلتے چلتے گھر کے قریب پہنچا۔۔۔۔۔۔۔۔ آج کس مُنہ سے گھر جاؤں گا؟ بچے کیا کھائیں گے؟ خدا نے پیدا کیا ہے تو رزق کی ذمہ داری بھی تو لی ہے! تو پھر آج مجھے کیوں نہیں دیا؟ طرح طرح کے خیالات نے اس گھیر رکھا تھا! بنجر ذمین پر بنجر قدم ابھی بھی آگے بڑھ رہے تھے! نہ چاہتے ہوئے بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنے میں شور کی آوازیں آئیں!! لوگ اس طرف لپکنے لگے!! وہ بھی چل دیا! آخر کیا ہے وہاں جس سمت سب بھاگ رہے ہیں؟ اس کا تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔ آخر کار قریب پہنچا تو دیکھا قحط زدگان کے لئیے راشن آیا تھا۔۔۔۔ لوگ پاگل ہو رہے تھے ایک دوسرے سے لڑائی تک کی نوبت آن پہنچی۔۔۔ ( خدا جب دیتا ہے وہ تو نہیں لڑواتا) اس نے دل میں سوچا سب لوگ قطار بناؤ ۔۔۔ قطار بناؤ ( خدا جب دیتا ہے وہ تو قطار نہیں بنواتا) اس نے پھر سوچا! خیر اس کو بھی راشن ملا اور وہ خوشی خوشی گھر کی جانب چلنے لگا اور جاتے ہوئے ایک ایسی دعا دی جو کسی بد دعا سے کم نہ تھی۔۔۔۔۔۔ اگر ایسے ہی کھانا ملے گا تو اللہ کرے یہ قحط ہر سال پڑے!! اب بات ہے ان لوگوں کی جو پھل بیچنے والوں کا بائیکاٹ کرنے پہ تُلے ہیں زرا سوچئے اگر بھوک افلاس سے تنگ آ گر ان لوگوں نے خدا سے شکوہ کر لیا اور ان کا مسیحہ کوئی آ پہنچا تو پھر ان کا کیا بنے گا؟ زرا یہ تو سوچئیے ان بیچارے ڑیڑھی برداروں کا مہنگائی میں کیا قصور! قصور تو حکمرانوں کا ہے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کا ہے ذرا ان غریب لوگوں کے بیوی اور بچوں کی بھوک کے بارے میں تو سوچئے! میں ایک بات تع دعوی سے کہوں گا کہ اگر بھوک کی ایک مجسم شکل ہوتی تو یہ بائیکاٹ کرنے اور کروانے والے لوگ ڈر جاتے اس سے
شاہان عماد حسن
3rd year ( Q-45)