“تعلیم کی سہولت کے بعیر کوئ معاشرہ ، بن پنکھ کی چڑیا کے مانند ہے. دشمن ہمارے بچوں کو پڑھائ سے دور کرنا چاہتا ہے. مگر ہم اسے ایسا کبھی نہیں کرنے دیں گے “
پرنسپل صاحب نے خوب فہم وفراست کا استعمال کر کے حوصلے سے بھرپور لہجے میں کہا ……..
ہم دونوں کو چارسدہ حملے کے اثرات ومقاصد پر بحث کرتے 30 منٹس ہو چکے تھے اور آخرکار ہم ایک معنی خیز نتیجے پر جا پہنچے……..
اسی دوران آفس کے فون کی گھنٹی بجی. فون لائن پر موجود شخص نے صرف دو باتیں بول کر بات منسوخ کر دی.
“اس ہفتے تیرے کالج پر ہونے والے حملے میں کوئ طالب علم بچ نہیں پائے گا”
نمبر افعانستان کا تھا. پرنسپل صاحب سکتے میں چلے گئے اور فون ان کے ہاتھ سے گر گیا.
وائس پرنسپل ہونے کی حیثیت سے میں نے فورا ڈی-آئ-جی پنجاب کو فون لگایا. جناب نے سیکیورٹی سخت سے سخت تر کرنے کی بھرپور یقین دھانی کرائ……
ہم نے بنا وقت ضائع کیے وزیراعلی پنجاب سے بات کی.پرنسپل صاحب نے اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “میں سیکیورٹی سے بالکل مطمئن نہیں ہوں. میرے خیال میں کالج ایک ہفتے کے لئے بند کر دینے میں ہی عافیت ہے .”
تھوڑی بحث کے بعد وزیراعلی صاحب پرنسپل کی بات ماننے پر مجبور ہو گئے. کالج میں عام تعطیل کا اعلان کر دیا گیا. پرنسپل نے دستاویزات سمیٹے ہوئے کہا:
“جناب ! جان ہے تو جہان ہے”
ڈیڑھ گھنٹے پہلے کی گئ بحث کا نتیجہ ابھی تک میرے ذہن میں گونج رہا تھا. مگر میں نے خاموش رہنے میں خیریت جانی کیونکہ چھٹی کی جتنی خوشی طلبا و طالبات کو تھی اس سے شاید زیادہ ہی مجھے تھی.
اسی لئے تو مرا گاوءں دوڑ میں ہارا
جو بھاگ سکتے تھے ،بیساکھیاں بنا رہے تھے
Muhammad Abdullah Hassan
2nd year (Q46)