رموز عشق
تو مراقبے پہ قیاس کر
یہ رموز عشق بے نقاب کر
رقص گماں میں ڈوب کر
بقمال زم وجدان کر
جو جنونیت سے سیراب ہو
اس پیاس کو برقرار کر
سیناۓ دل کو چیر دے
سر راہ نظر شکار کر
نہ خرد و عقل سے کام لے
نہ تخیلات کی بات کر
جو منائیں جشن شرارگی
تری نظر کو مسمار کر
ان خیرہ کردہ حواائیوں
کو تیغ فن سے ہوار کر
انہیں چار سمت سے گھیر کر
رخ پر بلا کا وار کر
باقی رہے گر تشنگی
تو جذب فن کی بات کر
نہ فنون سے ہو چارگی
تو خیال دل کو ہوار کر
رقص گماں میں ڈوب جا
رخ دل کو دل پہ سوار کر
پھر کھلیں جو رمز شناسگی
تو دلوں پہ خود آشکار کر
بزبان عشق کلام کر
یہ راز بھی سر عام کر
5:26am
23-5-2017
فخر زبیر
Second year ( Q-46 )