میری ماں اک مرکب ہے
ضعیف آنکھوں کا جن میں
نور مدھم ہوتا جاتا ہے
چاندی کو پکڑتے ٹوٹتے
کمزور بالوں کا
لرزتے, کھردرے ہاتھوں کا
جن میں کام کی سکت نہیں ہے اب
اس چہرے کا جس کے خال و خد
جھریوں کا پیکر ہیں
پھٹے پاؤں کا جو
یخ بستہ موسم میں
سکڑتی, بھر بھراتی شاخ جیسے ہیں
کسی لکڑی سے اڑتی
راکھ جیسے ہیں
گزرتے سخت سالوں کی
بپھرتی تیز آندھی سے
لڑتے تھک چکی ہے وہ
وہ اب کمزور بڑھیا ہے
…….مگر
وہ اپنے لعل کے بڑھتے ہوۓ
قدموں پہ شاداں ہے
وہ اپنے عزم کو اس کے
ابلتے خوں میں پاتی ہے
وہ اپنے ضعف پہ خوش ہے
کہ اس کے جسم کی طاقت
“کسی کی پھولی شریانوں کے سرکش خوں کا حصہ ہے”
وہ اپنے ضعف_رفتہ کے
ستم انگیز لہجے سے
لڑتے تھک چکی ہے اب
وہ اب آرام چاپتی ہے
میں اس کا چور چور جسم
مخمل پہ سلا تو دوں
میں اس کی دکھتی آنکھوں میں
ٹھنڈک کو بٹھا تو دوں
جہاں کی ساری خوشیاں
اس کے پیروں سے
بکھرتی دھول تو کر دوں
……..مگر
جو اس کا قرض ہے مجھ پر
وہ میں کیسے اتاروں گا
کہ یہ سب اس کے احسانوں کے
جز کے جز کا جز ہے بس
…….کہ یہ تو
جز کا جز ہے بس
Rehan Ahmed
1st year (Q-47)