اس نے اپنا ہاتھ جب حیاءکی کلائ کی طرف بڑھایا تو وہ بےساخت بولی: “رکیئے پلیز!!”
حارث چونک گیا ارو بولا
“کیا ہوا حیا؟”
“مجھے نہیں معلوم بس آپ مجھ سے دور رہیے!!!” حیا کی خوبصورت آنکھیں زرا نم ہو ئیں۔۔
“حیا؟؟ ادھر دیکھو میری طرف ”
حیا نظریں چراتے ہوئے بولی
“میں نے کہا نہ حارث ! مجھ سے نکاح ھونےتک دور رہئے”
اسنے اثبات میں سر ہلایا اور بولا
” میں دیکھ رہا ہوں کہ تم نے اپنی طرف آنے کے میرے سارے راستے بند کر دیئے ہیں ”
“ادھر دیکھو اور جواب دو ۔ نظریں مت چراؤ مجھ سے میں تمہاری آنکھوں میں اپنے لیئے یہ بےنیازی پہلی بار دیکھی ہے”
حیا کی آنکھوں سے ٹپکتے موتیوں نے اسکے حجاب کو ترکر دیا
“مت رو حیا مجھے بتاؤ ! میری جان کیا میری کسی بات سے خفا ہو؟”
“نہیں!!”اسنے آنسو پونچھتے ہوئے انکار میں سر ہلایا۔
“تو پھر ؟”
“کچھ نہیں!!”
“کیا کچھ نہیں ہاں؟ کیا تم اب مجھ سے محبت نہیں کرتی حیا؟بولو جواب دومجھے؟” وہ سوالیہ نظروں سے حیا کو تکنے لگا۔۔
کچھ دیر کے لیئے ایسی خاموشی تاری ھوئ کے جس کی چادر کو چیرنے کرنے کےلئے حیا کو الفاظ کے قیلت محسوس ہونے لگی آخرکار وہ دھیمی آواز میں یوں گویا ہوئ
“حارث! میں آپسے دور اسی لئے رہتی ہوں کیونکہ میں آپکو اب ، پہلے سے زیادہ محبت کرتی ہوں ،میں نہیں چاھتی کے ابھی آپ کے قریب رہ کے خدا کو ناراض کردو اور اس کے نتیجے میں ساری ذندگی کیلئے آپ سے دور کردی جاؤں!”
حارث کی آنکھیں بھیگنے لگیئں وہ ٹکٹکی باندھے حیا کی پاکیزہ محبت کے سمندر میں ڈوبے جا رھا تھا۔
“حارث مجھے معاف کیجئے گا لیکن ہونے والے شوہر کی رضا کی خاطر اپنے رب کو ناراض نہیں کرسکتی چاہے پھر آپ مجھے اس بات کیلئے اپنی زندگی سے کیوں نہ بےدخل کردیں!!!”
“میں نے آپ سے بے لوث محبت کی ہے ،پاکیزہ محبت”
حارث کو اپنی قسمت رشک آنے لگا اسنے حیا کو اعتماد میں لیتے ھوئے کہا
“یقینً تمہاری مجھ سے محبت حقیقی ہے حیا میں وعدہ کرتا ھوں اب میں بھی اسی طرح تمہیں اپنے رب سے مانگو گا”
حیا کے چہرے پہ خوشی کی لہر دوڑ گئ اور اسنے کہا
“بےشک میرا رب آپکی اس خواہش پہ کُن ضرور کہے گا”
“انشاءاللہ حیا انشاءاللہ”
Subas syed
Third year (Q-45)