عمر گزرے گی کیا یونہی عذاب میں؟
بے رُخی بھی انتہا کی ہے جناب میں
گناہوں کے وجود کا سبب ہے یہ
ورنہ لذت ہی کیا ہے ثواب میں
ایک خط تھا بیھجا عرضِ مطلب کو
خود آ گئے ہیں وہ خط کے جواب میں
سُوکھا، رُوکھا، مُرجھایا ہوا پڑا ہے
پھول وفا کا جو تو نے رکھا تھا کتاب میں
ٹوٹے، بکھرے، ادھورے سپنے لے کر
غرق ہوا رہتا ہوں میں شراب میں
اٹھتے، بیٹھتے، جاگتے،سوتے ایک ہی موضوع
الجھا رہتا ہوں تیرے دئیے غموں کے حساب میں
وہ سبق جو تو نے پڑھایا اپنی محبت میں
وہ درج ہی کب تھا عشق کے نصاب میں
شاہان عماد حسن
تھرڈ ائیر (Q-45)