مرگ ادا
ذرا دیکھو تو نظروں سے یہ مجھے روز شکستہ کرتے ہیں
پھر میں دیکھوں ‘ چہروں سے انکے رنگ اترتے جاتے ہیں
بس بہت ہوا اب اور نہیں دل مجھ سے بغاوت کرتا ہے
ان شر انگیز نگاہوں سے ہر روز عداوت کرتا ہے
نہ امن سے انکا کچھ لینا نہ ایماں سے ہی چار ہوئے
یہ دل فتنوں کے قیدی ہیں نہ فتنوں سے آزاد ہوئے
ذرا آؤ تو دو ہاتھ کریں ارواج جہاں پر وار کریں
ذرا لفظوں کی یلغار کریں پھر ادا کا دامن چاک کریں
سر مست ادا کا ساز لیے’ وہ رنگ دکھاتے جائنگے
ہم لفظوں سے کھلیں گے ‘ ادا کو مار گراتے جائنگے
By Fakhar Zubair
Second Year (Q-46)