نہ جانے کیوں آج دل نے کہا
چل اس وادی میں چلتے ہی ہیں۰۰۰
جہاں شام نه هو کبهی خشیوں کی
جہاں دن ڈھلے سرگم کی طرح۰۰۰
جہاں میں گاؤں بلبل بن کر
جہاں وہ سنے لہروں کی طرح۰۰۰
جہاں ڈوبوں گر غمِ دریا میں
تیری یاد هو بس تنکے کی طرح۰۰۰
هو ساتھ تیرا احساس جہاں
جھونکوں میں اڑوں پنچھی کی طرح۰۰۰
هو سحر تیرا بس چاروں اوور
میں رقص کروں موروں کی طرح۰۰۰
دم زندگی جو کرے وفا
تیرے ساتھ چلوں ساےء کی طرح ۰۰۰
نہ جانے کیوں آج دل نے کها
نہ جانے کیوں۰۰۰
By Sana Akbar
2nd Year (Q-46)
اب وہ زیبائشیں کہاں باقی
دل کی فرمائشیں کہاں باقی
یونہی خود ساختہ سا ہنستا ہوں
ورنہ گنجائشیں کہاں باقی
کوئی کہہ دے تو مسکراتا ہوں
خود میں اب خواہشیں کہاں باقی
دسترس میں حیات ہے لیکن
اس کی آرائشیں کہاں باقی
رونقیں دیکھنے میں جوبن پر
کل سی گرمائشیں کہاں باقی
ساری آلودگی ہے یادوں کی
نئی آلائشیں کہاں باقی
یہ نمی غیر کا ہی غم ہو گا
اب یہ آسائشیں کہاں باقی
روز و شب آج بھی ہیں پہلے سے
اِن کی پیمائشیں کہاں باقی
حرف سارے ترے وہی ابرک
پر وہ فہمائشیں کہاں باقی
😊