معاملہ کچھ یوں شروع ہوتا ہے, میڈیکل کالج میں داخلے سے قریب قریب ایک ماہ قبل میں نے کالج والی موڑ پر ایک خانہبدوش روہیلی دوشیزہ کو دیکھا. اس کے نقوش اور خوبصورتی نے مجھے یک بارگی ٹھٹھکا دیا. میں اسے دیکھ دیکھ بحر حیرت میں ڈوبا جاتا تھا… انگشت بدنداں تھا, خالق کی صناعی کی داد میرے دل سے نکلی. وہ سولہ یا سترہ سال کی لڑکی تھی. وہ اپنے ساتھ ایک معذور کو وہیل چیئر پر لیے بھیک مانگتی تھی. میں اسکے سرخی سے بھرپور گالوں کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا. اسکے صاف ستھرے ہونٹوں سے یہ بات اخذ کرنا مشکل نہ تھا کہ وہ مستقل بھکاری نہیں ہے. اسکا بدن گو کہ دوپٹے میں چھپا تھا مگر اس کے قد کاٹھ سے اس کے تمام زاویوں کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا. اسکا ایک ہاتھ دوپٹہ سنبھالتا تھا جبکہ دوسرا اس نے بھیک مانگنے کی غرض سے پھیلایا ہوا تھا. اس کے چہرے سے ٹپکنے والی مجبوری اور اس کے حسن نے عجیب امتزاج بنا دیا تھا. یوں لگتا تھا کہ وہ میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس ستم زدہ شہزادی ہو.
میں اسے دیکھتا رہا جب تک کہ رکشہ مجھے اس سے بہت دور نہ لے گیا. وہ چہرہ اور وہ سبھی خدوخال میرے ذہن میں نقش ہو گئے. وہ سارا دن میں نے زندگی کو سمجھنے میں گزار دیا. مجھے گاہے گاہے احمدپور جانے کا اتفاق ہوتا رہتا تھا. جب بھی گیا اسے وہیں اسی حالت میں پایا. رفتہ رفتہ اسکے گالوں اور ہونٹوں کی سرخی پہ سیاہی غالب آنے لگی تھی. وہ سرخ کی بجاۓ کتھئی ہو چکے تھے. موسم بدل رہا تھا. جاڑا اپنے رنگ دکھا رہا تھا. صبح شام پڑنے والے کہرے کے ستم آمیز رویے سے اس کی نزاکت اور جاذبیت دھندلانے لگی تھیں. جب بھی اسے دیکھتا یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کے جسم کی تراش اور خوبصورتی اپنے نصیبوں پر بین کرتے ہیں. جس عمر میں اس کی آنکھوں کو حسین آنکھوں کا مسکن ہونا تھا اس عمر میں وہ آنکھیں مفلسی مجبوری اور بھوک جیسے عذابوں کا گھر بنی تھیں. جس عمر میں اس کی کلائیوں میں کھنکتی چمکدار ونگ ہونی تھی اس عمر میں اس کے ننگے ہاتھ دو نوالے اٹھانے کو ترستے تھے. جب اسے نظریں جھکا کر گھر ہونا تھا تب وہ نظریں اٹھا کر چوک میں کھڑی تھی. اس کی نازک سی آواز میں اب ایک مضبوطی آچکی تھی. حیا, خوبصورتی, نزاکت بتدریج بے باکی, پختگی اور مظبوتی میں بدل رہے تھے.
“حسن کی ایسی تذلیل میں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی. “
پھر میرا داخلہ ہوگیا. اس کی تصویر اور اس کا نقش نئے مناظر اور نئے لوگوں کی تصویروں کے ہجوم میں گم ہو گئے. اس کا خیال تک قصہء پارینہ بن گیا. کل جب تقریباً بیس دنوں بعد میرا گھر آنا ہوا تو راستے میں اس پر نظر پڑی. میرے دل سے زور دار ہاۓ نکلی. میری کیفیت نا گفتہ بہ تھی. اس کی نیم مردہ جاذبیت اب بھی اس کے گہرے رنگ سے جھانکتے خدوخال میں عیاں تھی. اس نے مجھے یوں دیکھا گویا کہتی ہو ” او شاعر! او لفظوں سے کھیلنے والے! او حسن پرست! ذرا ایک شعر میرے نادیدہ پر بھی کہہ دے, کسی غزل میں میری گم گشتہ جوانی کا تذکرہ ہی کر دے. کوئ شعر میری بھوکی نگاہوں اور ننگی کلائیوں کی بابت ہی کہہ دے. کیا میرا فراموش کردہ حسن قابل سراہت نہیں؟ تو لکھ نا اس پر کچھ! کچھ تو لکھ دے… اللہ کے نام پہ. “
اس کے بے نوا حسن کی صدا مجھے اندر تک چیرتی چلی گئی. میں سواۓ شرمندگی سے آنکھیں جھکانے کے, کچھ نہ کر سکا. میری زبان گنگ تھی. میں اس کے جواب میں کیا کہتا؟ یہ کہتا کہ مجھے تا نازنینوں اور مہ جبینوں سے فرصت نہیں, میں تیری طرف کیوں دیکھوں! میرے قلم کو ابھی اس خوبصورتی کو سراہنا ہے جس کا شکر ادا نہیں کیا گیا, میرے الفاظ و افکار تو اس حسن کے ہاتھوں بک چکے ہیں جو بہت ارزاں ہے اور سب کے سامنے عیاں ہے. میرا دل بھی اسی کا دلدادہ ہے جسے اپنے حسن پر غرور ہے, جبکہ وہ حسن اسے عطا کیا گیا ہے, اور عطا کر کے محفوظ رکھا گیا ہے موسموں سے, غم روزگار سے, بھوک اور مفلسی کے جاں توڑ عذابوں سے.
اس کے ہونٹ…. آہ…. ان ہونٹوں کو نہیں بھولوں گا جن پر پپڑیاں جمی تھیں. وہ یوں ہوچکے تھے جیسے کوئی شاخ شدید موسم میں خشک تر ہو جاتی ہے. انہیں دیکھ کر نہ گکاب کی پنکھڑی یاد آتی تھی نہ شراب کی صراحی. وہ آنکھیں اب نہ تو میکدے کے باب تھیں اور نہ ہی تیرو تلوار…. وہ بس بھوکی تھیں. میں اس کے لیے بس یہی لکھ سکا
ہم نے ظالم نہ کوئی بھوک سےبڑھ کر دیکھا
حسن شاہاں کو بھی سڑکوں پہ دربدر دیک
ریحان احمد ریحان