” گھر سے چلے تھے یہ سوچ کر کہ بنیں گے ہم کلرک
راستے میں جو نظر آئ اک حسینہ تو رہ گےء ھم صرف ٹھرک
پھر ماشآءللہ سبحان للہ نکلتا ھے منہ سے ایسے
کسی مذہبی خاندان کے اکلوتے سپوت ہوں جیسے
بستہ پھینک کالر چڑھا یوں ھیرو پنتی دکھاتے ہیں
شرم و حیا کی ساری کشتیوں کو آگ لگاتے ہیں
ہر چوک ہر چوبارہ اس آس پر طے کر جاتے ہیں
کہ شکیلہ نہیں تو جمیلہ ورنہ انیلہ کے ساتھ بسم اللہ کرواتے ہیں
شوق عشق کی انتہا تو تب ہوتی ہے
جب سوچتے ہیں بیٹی کا نام ببلی اور بیٹے کا نام موتی ہے
انہی جذبات میں ڈوبے پہنچے ہم محبوب کے کوچے
ایسی سیوا ہوئ کہ اب ہم سے کوئ ہمارا حال نہ پوچھے
پڑھ کے میرا حال عاشقو اتنی سی بات مانو
دل پھینکنے سے پہلے اسکے بھاءیوں کی تعداد جانو
ماہ نور رضا
تیسرا سال