“جنوری کی آخری صبح”
اور یہ جنوری کی آخری صبح
سرمئ بادلوں کی اوٹ سے
فضا کو منور کرتا سورج
ہلکی خوشبودار ہوا
اور بھیگی پتیاں پھولوں کی
اور میرے کمرے میں بسی
اک معطر سی خاموشی ہے
اور وہ دیکھو اس کونے میں
رات کی لکھی غزل پڑی ہے
ابھی ابھی خواب دیکھا ہے کہ
دھیان کی سکوت بھری راہداری سے
کوئ چپکے سے چلا آیا ہے
سیاہ آنچل میں لئے چاند سا چہرہ
کوئ سامنے بیٹھا ہنس رہا ہے
میں اس سے باتیں کرتا ہوں
وہ مجھ کو گیت سناتا ہے
دیکھتا ہوں کہ ہوا کا جھونکا
ان زلفوں سے کھیل کے جاتا ہے
نیند سے بوجھل اسکی آنکھیں
کتنی اچھی لگتی ہیں
میری لکھی غزل پڑھ کر
وہ شرما سا کچھ جاتا ہے
اور اسی لمحے
میری آنکھ کھلی ہے
اور یہ جنوری کی آخری صبح
میں اور تم ہیں پھر سے جدا
کل رات کو خواب میں ملتے ہیں
تب تک کے لئے ہے الوداع…
By Muddassir Iqbal
First Year (Q-47 )