بچپن میں ایک شعر پڑھا تھا
اب تو اللہ ہے حافظ ہمارے حال کا
بچہ عشق فرماتا ہے نو دس سال کا
بچہ عشق فرماتا ہے نو دس سال کا
ہم نے شیخ صاب سے ان کے عشق کی
کہانی سننے کے لیے اصرار کیا. انہوں نے زور دار ٹھنڈی آہ بھری, سگریٹ سلگائی, کش لگایا اور ہوا میں دھوئیں کے مرغولے بناتے
ہوۓ گویا ہوۓ.
جوانی بہت ناگہانی چیز ہے, کبھی بھی وارد ہو سکتی ہے. جب اس عذاب ناگہاں کا ورود ہم پر ہوا اس وقت ہم تیسری جماعت میں تھے. چونکہ جوانی اور عشق لازم و ملزوم ہیں اس لیے ہمیں اپنی جوانی کا احساس اس وقت ہوا جب ہمیں عشق ہوا. ان وقتوں میں عشق ہی ہمارا اوڑھنا بچھونا تھا, اور کھانا پینا بھی. ہر وقت صف عاشقاں میں ممتاز رہنے کی کوشش ہوتی تھی. اس وقت یہ گانا نیا نیا آیا تھا اور ہمیشہ اسے گنگناتے تھے…
تیرا میرا فسانہ, دہراۓ گا زمانہ
ہمارے تمام تر ترنم اور گنگناہٹ کا محور فقط ایک چہرہ تھا. سکول جاتے وقت ہم ان کے گھر کے راستے میں ٹھہر جاتے. پھر ان کے ساتھ ہی سکول میں داخل ہوتے. اکثر دیر ہو جاتی اور ماسٹر صاحب سے مار کھانا پڑتی. واپسی پر امی سے ڈانٹ کھانا تو معمول تھا کیونکہ پہلے انہیں گھر چھوڑنا ہوتا تھا. اسی اثناء میں دیر ہو جاتی. دو ایک بار تو ابو جی نے بھی جوانی میں ذلیل کیا. خیر, عاشقوں کو ایسی مشکلات ہر دور میں جھیلنا پڑی ہیں. ہم نے انہیں تاکنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا. سانجھ سویرے, سردی میں گرمی میں, گھر کے باہر, سکول کے باہر, مدرسے کے باہر غرض ہر جگہ تاکا. ہم نے انہیں اتنا تاکا اور ایسے ایسے تاکا کہ اگر مجنوں, رانجھے اور فرہاد میں سے کوئی زندہ ہوتا تو یقینا ہماری مریدی اختیار کر لیتا.
ہم عاشق تو پرلے درجے کے تھے لیکن ساتھ ہی شرمیلے بھی تھے. کبھی ان سے اظہار عشق نہ کر سکے. ہمارا ٹھرکپن انہیں کھٹکتا ضرور تھا لیکن نظر انداز کرنے میں وہ ماہر تھیں. ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ عاشق عشق کی آگ میں جلے اور معشوق تک اسکی سینک تک نہ پہنچے. لیکن مجال ہے جو کبھی ذرا التفات دکھایا ہو. جہاں ہمیں دیکھ لیتیں, کترا کر, اترا کر نکل جاتیں اور ہم ان کے قدموں کے نقوش میں خیاباں خیاباں ارم دیکھتے تھے. اس تانکا جھانکی میں ہماری جوانی کے دو سال گزر گئے. اب ہم پانچویں جماعت میں تھے اور ہماری جان,آن , بان, پان کی دکان چھٹی جماعت میں پائی جاتی تھی. گو وہ ہم سے سینئر تھیں لیکن عشق و محبت میں ان رکاوٹوں کے چہ معنی است؟
سپورٹس ویک کی آمد آمد تھی. سیمی فائنلز میں ہماری ٹیم نے انکی ٹیم کو ہرا دیا. ہمارے ہر ہر چوکے چھکے پر انکا دل ہلتا تھا اور ان کے دل سے ہمارا دل. ہم سے ان کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی. ہم نے اپنی ٹیم کو ہرانے کی بھرپور کوشش کی. زیرو پے آؤٹ ہوۓ, ایک کیچ چھوڑا, اوور میں سولہ سکور کھاۓ لیکن ان کی ٹیم پرلے درجے کی منحوس ثابت ہوئی. باوجود اتنی ڈھیل کے جیت نہ سکی اور ہم نے مفت میں اپنے ساتھیوں سے گالیاں بھی کھائیں.
اگلے روز فائنلز تھے. ان کی جماعت ہماری حریف ٹیم کو سپورٹ کر رہی تھی. ہم نے انہیں 58 رنز کا ٹارگٹ دیا. فیلڈنگ کے وقت ہم نے کپتان کی خوب منت سماجت کی کہ وہ ہمیں لیگ سائیڈ پہ کھڑا کریں. وہ خوب رو اسی طرف بیٹھی تھی. ہماری سابقہ شاندار کارکردگی کے باعث کپتان ہماری بات ماننے کو تیار نہ تھا. ہم تقریبا رودیے. عاشق کے آنسوؤں میں بڑا اثر ہوتا ہے. مان گئے. دل ہی دل میں کیچ چھوڑنے کا تہیہ کر لیا تھا. مس فیلڈ بھی کرنا تھی. وہ میچ ہماری زندگی کا خوشگوار ترین میچ ثابت ہوا. ہم بار بار اپنے DSLR آنکھوں سے انہیں فوکس کرتے اور zoom کر کر کے تاڑتے تھے. بار بار ان کا اپنی جگہ سے اچھلنا, کبھی تاسف سے اپنے ناخن کاٹنا, کبھی خوشی سے کھل اٹھنا غرض تمام مناظر پہ ہمارا دل دھڑکتا تھا. ہم ان کو تاڑنے میں خوب محو تھے. یکبارگی تو یوں بھی ہوا کہ گیند ہماری ٹانگوں کے بیچ سے گزر گئی اور ہمیں پتا بھی نہ چلا. کپتان اور باؤلر اپنا فرض سمجھتے ہوۓ ہمیں گالیوں سے نواز رہے تھے. وہ ہم پر ہنس رہی تھیں اور ہم انہیں دیکھ کر.
آخر وہ لمحہ آگیا. آخری اوور میں آٹھ رنز درکار تھے. ہر ہر گیندپر تماشائیوں اور کھلاڑیوں کا دل ڈولتا تھا. آخری دو گیندوں پر چار رنز بچے تھے. باؤلر بہت دور سے بھاگتا بھاگتا آیا اور اپنی پوری قوت جمع کر کے گیند پھینک دی. بلے باز جیسے پہلے ہی ہمیں تاک میں رکھے ہوۓ تھا. زور کا شاٹ اور گیند پرواز کرتی ہوئی ہماری جانب. ہماری پوری ٹیم ‘کیچ, کیچ’ کے نعرے لگا رہی تھی. ہم سچ مچ کیچ کرنے والے تھے کہ ہمارے پیچھے سے سریلی آواز آنے لگی “ڈراپ , ڈراپ, ڈراپ” اور ہمیں اپنا عاشقی کا فرض یاد آگیا. ہم نے کیچ چھوڑ دیا اور گیند حد پار کر گئی. ہم میچ ہار چکے تھے. کپتان تین گالی فی سیکنڈ کی فریکؤینسی سے گالیاں دیتا ہوا ہماری طرف بڑھ رہا تھا. ہم بچ بچا کر بھاگ نکلے. لیکن اس میچ کو ہارنے میں جتنا مزا آیا تھا اتنا تو انڈیا پاکستان کے میچ میں پاکستان کے جیتنے پر بھی نہ آتا. واپسی پر وہ ہمارے قریب سے گزریں. ان کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی. ہمارے قریب سے گزرتے ہوۓ آخر انہوں نے منہ کھول ہی دیا.
“Catches Win the Matches“
کہا تو یہی تھا لیکن مطلب اس کا بھی وہی تھا کہ بھاڑ میں جاؤ. ہم جب تک اس سکول میں رہے عاشق نا مراد رہے. پانچویں کے بعد سکول چھوڑ دیا. اور اب آپ کے سامنے ہیں.
اسی کہانی کے دوران شیخ صاحب چھ عدد سگریٹ ڈکار چکے تھے. یہ ان کی نامرادی کا ثبوت تھا!
Ubeer Mahtab
3rd Year MBBS Quaid-e-Azam Medical College