ڈاکٹر صاب
ہم “ڈاکٹر” تو تبھی ہو گئے تھے جب ہم نے میٹرک میں پورا گاؤں ٹاپ کیا لیکن “ڈاکٹر” کے ساتھ “صاب” کا لاحقہ میڈیکل کالج میں داخلے کے بعد لگا. چنانچہ اب ہم “ڈاکٹر صاب” ہیں. جب ہمارا پہلی کوشش میں داخلہ نہ ہوا تو کچھ احباب طنزاً “ڈاکٹر صاب” کہا کرتے تھے مگر اب اللہ کا شکر ہے کہ طعنہ بازوں کو منہ کی کھانی پڑی. کچھ احباب اب بھی منہ کو ٹیڑھا کر کے صرف “ڈاکٹر” کہتے ہیں, لیکن اس سے ہمارے “ڈاکٹر صاب” ہونے پر چنداں فرق نہیں پڑتا. بھئی ہم ڈاکٹر ہیں, کوئی مانے نہ مانے.
ہم اس ہفتے گھر گئے تو راستے میں چچا عابد ملے. چہرے حلیے سے پریشان حال معلوم ہوتے تھے, ہاتھ میں چند کاغذ کے ٹکڑے تھے. مجھے دیکھتے ہی کھل اٹھے, فوراً بولے “ڈاکٹر صاب! مجھے معدے کی تکلیف ہے, ہسپتال والے ڈاکٹر نے یہ نسخہ لکھ دیا ہے, ذرا اک نظر دیکھ لیجیے.” ان کے منہ سے ڈاکٹر صاب سن کر سینے کی چوڑائی میں اضافہ ہو گیا. ہم نے کسی ماہر پیشہ ور کی طرح دائیں ابرو کو اوپر اور بائیں ابرو کو نیچے کر کے داڑھی کھجاتے ہوۓ اسے confidence سے دیکھنا شروع کیا. ہمارا خیال تھا کہ اب چونکہ ہم “ڈاکٹر صاب ” ہیں تو کچھ نہ کچھ تو سمجھ آہی جاۓ گا. لیکن حسب سابق چند آڑھی ترچھی لکیریں ہی نظر آئیں. اب بات عزت پہ بن آئی تھی, ہمیں کوئی راہ فرار نظر نہ آئی تو کہا “ابھی ہم تھکے ہوۓ ہیں, بعد میں آپ کے ہاں چکر لگاتے ہیں.” یہ سیاسی بیان دے کر وہاں سے کھسکنے کی کی. گھر میں داخل ہوۓ تو امی جان بلائیں اتارنے کو تیار کھڑی تھیں.
ابو جان نے اپنے مخصوص بارعب لہجے میں پوچھا ” ڈاکٹر صاب! کہاں رہے اتنی دیر؟ پچھلی دفعہ تو گھنٹہ بھر پہلے ہی آگۓ تھے”. دل نے کہا “ابو جان کو تو ذرا فرق نہیں پڑتا کہ بیٹا ڈاکٹر بن رہا ہے, مجھے تو وہی نکما آوارہ ہی سمجھتے ہیں”. ابو سے سلام لینے کے بعد کہا ” جی وہ بس ذرا دیر سے ملی تھی.” بولے “کوشش کہا کرو جلدی آنے کی, حالات خراب ہیں”. دل میں سوچا “مجھے تو ابھی بھی بچہ ہی سمجھتے ہیں… “
شام کو خالہ بختاور بھی آدھمکیں. آتے ہی اپنی “لاکھوں میں اکلوتی” بیٹی کے قصیدے پڑھنا شروع کر دیے. “ارے میری بیٹی تو تارا ہے تارا… کم پڑھی ہے تو کیا, گھر داری, رکھ رکھاؤ میں تو اچھی بھلی ہے گھر چلانا کوئی چھوٹی بات ہے بھلا, ہڈی بوٹی مارنی پڑتی ہے.” ہم ان کے سامنے کیا گئے وہ تو زمین آسمان کے قلابے ملانے کے درپے ہو گئیں. “اے ہے ہمارا ڈاکٹر, اللہ خوش رکھے, چھاؤں میں رکھے, گرم ہوا نہ لگے میرے بچے کو, خیر سے کتنا بڑا ہو گیا ہے, شادی کے لائق ہو گیا ہے ماشاءاللہ…”. مجھے پہلی بار اپنے بڑنے ہونے کا شدید احساس ہونے لگا. اس احساس خوشگوار کی سر کوبی کو ابو جان منظر پر نمودار ہوۓ. فرمایا “کمبخت خاکروب کئی دنوں سے نہیں آرہا, گلی میں کوڑا بھر گیا ہے, صبح ذرا گلی میں جھاڑو لگا دینا”.
اے لو, ابو جی کے ان الفاظ کے ساتھ ہی ہم دشت تصور سے دشت واثق میں آگئے. ابو جی نے خالہ کے سامنے ہماری ڈاکٹری کا تیا پانچہ کر کے رکھ دیا. اگلے روز علی الصباح منہ اندھیرے محترم ڈاکٹر صاب منہ کو رومال میں چھپاۓ (تاکہ کوئی دیکھ نہ لے) ہاتھ میں لمبے والا جھاڑو پکڑے سرگرم عمل تھے.
ہم ڈاکٹری کو لے کر بہت جزباتی ہیں. اب کل ہی کی بات ہے کہ بازار میں ارشد بھائی بہت قدر گرم جوشی سے ملے. ہم اس قدر پر جوش ہو گۓ کہ ایک مرتبہ سچ مچ دل چاہا کہ وہیں چوکڑی جما کے بیٹھ جائیں اور نسخے لکھنا شروع کردیں. پھر اچانک ابو جی کو ادھر آتا دیکھا… سب کچھ چھوڑ چھاڑ سرپٹ گھر کی طرف دوڑ کھڑے ہوۓ.
امی جی کی نظروں میں تو ہم دنیا کے سب سے محنتی ڈاکٹر ہیں. ہمیں محسوس ہو نہ ہو امی جی کو ہماری کمزوری نظر آ ہی جاتی ہے. وہ تو ایک ہی دن میں ساری کمزوری ختم کرنے پے تل جاتی ہیں. کل تو انہوں نے حد کردی. گھر داخل ہوتے ہی سےب کا ملک شیک منتظر ملا, نماز کے فوراً بعد گاجر کا حلوہ کھلایا گیا. رات کو “دیسی گھی میں سالن” ڈال کر دو روٹیاں سامنے بٹھا کر کھلائیں. سب سے تشویش ناک مرحلہ تب آیا جب آدھا کلو دودھ ابو جان کی نظروں کے سامنے حلق سے اتارنا پڑا. نتیجتاً محترم ڈاکٹر صاب ساری رات بیت الخلاء کے ہم نشیں رہے.
بس جی, بات کو مختصر کرتے ہیں. ہمارے ڈاکٹر صاب ہونے کی سب سے زیادہ تذلیل یمارے کالج میں ہوتی ہے جہاں ایک سے بڑھ کے ایک “ڈاکٹر” اور “ڈاکٹرنی” ہے. وہاں تو پاس ہونے کے لالے پڑے رہتے ہیں. گھر جا کر ہم شفقتوں اور محبتوں سے مستفیض ہوتے رہے. اللہ نے پڑھنے کی توفیق نہ دی. اب واپسی پر ڈاکٹر صاب بس کے دھکوں سے مستفید ہوتے ہوۓ سوچ رہے تھے کہ کل کے ٹیسٹ میں کس کے پیچھے بیٹھنا ہے.
ریحان احمد
27 فروری 2107
عباس منزل, بہاولپور