
“مجھے لے جائیں گے انکل؟” اس نے معصومیت کا پیکر بن کر پوچھا.
“بیٹھ جاؤ بیٹا.”
اور وہ رکشے کے پچھلے حصے میں بیٹھ گئی. راستے میں میں اسے observe کرتا رہا. وہ اپنی عمر کے مطابق معصوم تھی لیکن اس کے اندر سے جھجھک اور ڈر ختم ہوچکا تھا. لوگ اب اس کے لیے اجنبی نہیں رہے تھے. وہ راستے میں اپنے انگوٹھے کو چباتی رہی. فرید گیٹ پہنچ کر رکشے والے نے پوچھا,
“بیٹا یہاں اترنا ہے؟”
“نہیں انکل یونیورسٹی چوک پر…”
مجھے اترنا تو فرید گیٹ پر تھا لیکن اس بچی کی بات سن کر میں رکشے میں بیٹھا رہا. کسی انجانے احساس نے مجھے وہیں دبوچے رکھا. اس سے استغناء اب میرے بس کی بات نہیں رہی تھی. وہ یونیورسٹی چوک پر اتری. میں بھی اتر پڑا. میں نے پیسے نکال کر رکشے والے کو دیے.اتنے میں وہ لڑکی رکشے والے کے پاس آئی اور اپنی ٹوکری سے کھجوروں کا پیکٹ اٹھا کر رکشے والے کی طرف بڑھا دیا.
“بیٹا آج تو میں کشمش والا لوں گا.”
“کشمش والا!” اس نے کشمش والا پیکٹ اٹھا کر اسے دے دیا اور ایک طرف چل پڑی. میں جھٹ پٹ اس کے پاس جا پہنچا.
“رکو.”
“جی!” وہ قدرے پریشان ہوئی.
“کیا کیا ہے تمہارے پاس؟” میں نے ٹوکری میں جھانکتے ہوۓ کہا.
“کھجوریں,چنے, نمکو, بھنی دال, تل شکری, کشمش, بادام, چار مغز.”
“آٹھ مغز نہیں ہیں؟”
وہ کھلکھلا کر ہنس دی اور اس کے ساتھ میں بھی ہنس دیا.
“اچھا مجھے یہ بھنی دال کا پیکٹ دے دو.”
اس نے اٹھا دیا. میں نے پیسے دیے تو وہ جانے لگی. میں اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا.
“تمہارا نام کیا ہے؟”
“علشبہ.”
“پڑھتی نہیں ہو؟”
“قرآن پڑھتی ہوں نا.”
“کوئی بھائی ہے؟”
“ہاں. چھوٹا ہے.”
“پڑھتا ہے؟”
“چیزیں بیچتا ہے.”
“اور ابو؟”
“رکشہ چلاتے ہیں.”
“چیزیں کیوں بیچتی ہو؟”
“مجبوری ہے.”
اس کے چھوٹے سے منہ سے پر اثر الفاظ یوں لگے گویا رٹی رٹائی بات ہو. اس نے سنجیدہ تاثر دینے کی کوشش بھی کی تھی لیکن سرا سر ناکام رہی تھی. وہ بناوٹی نہ بن سکی. غربت نے اس سے بچپن کے سارے لوازمات چھین لیے تھے لیکن بچپن نہ چھین سکی.
“آپکی امی کیا کرتی ہیں؟”
میرے اس سوال پر وہ تکلیف میں آ گئی. مجھے اس کے تاثر نے جواب دے دیا. میں اپنے اندر شرمندگی محسوس کرنے لگا. مجھے یوں لگا گویا وہ مجھ سے کہتی ہو کہ کیوں میری مجبوری اور دکھ کا مذاق اڑاتے ہو؟ وہ منہ سے کچھ نہ بولی, میرے منہ سے بھی کوئی لفظ نہ نکلا. میں نے اسے جانے دیا.
وہ لوگوں کو چیزیں دکھاتی چوک کی رونقوں میں اپنی ٹوکری اٹھاۓ گم ہو گئی. میں چند لمحے وہیں کھڑا رہا. پھر اپنے تجسس اور شرمندگی سے بھرے ذہن کو لیے دھیمے دھیمے قدموں کے ساتھ اپنے ہاسٹل کی طرف چل دیا.
ریحاناحمد
سال اول
|