یہ مرے نام کو بے نام بنانے والے
میرے اپنے ہیں یہ الزام لگانے والے
۔
تو مری جان کی کچھ فکر نہ کر ،اپنی سوچ
تو بھی روئے گا ، مجھے چھوڑ کے جانے والے
۔
وہ جو رہتا ہے مری ذات کے اندر چھپ کر
وہ بھی مجرم ہے ، مرا حشر اٹھانے والے
۔
یہ ضروری تو نہیں ہے کہ جدائی ہو مقدر
لمحے دیکھے ہیں کہاں آپ نے آنے والے ؟
۔
اُس نئے رنگ کی لڑکی کو پسند آتے کیسے

غالب و میر کے اشعار سنانے والے
۔
ہم محبت کے امیں ہیں ، اے جانِ ضریم !
تیرے دشمن ہیں تری بات اڑانے والے
۔
عثمان ضریم
3rd year MBBS