۱۵۰ لاشیں، یعنی کہ ۱۵۰ خاندان یعنی کہ ۱۵۰ خاندانوں کی نسلیں! جی ہاں یہ صرف ایک سو پچاس لاشیں نہیں تھیں یہ ۱۵۰ خاندان تھے ۱۵۰ خاندانوں کی نسلیں تھیں جو تباہ ہوئیں!
آنکھ تو یہ سن کر ہی آبدیدہ ہو گئی کہ ۱۵۰ لوگ جھلس گئے اور مر گئے۔مگر یہ دیکھ کر اور سن کر دل خون کے آنسو رویا، کلیجہ منہ کو آیا کہ ان میں بچے بھی شامل تھے! یہاں نسلوں کا زکر صرف ان بچوں کی وجہ سے کیا۔ جن بچوں نے اس ملک کا مستقبل بنانا تھا وہ خود اس ملک کا ماضی بن گئے۔ جن بچوں نے اس وطن کو آگے لے کر چلنا تھا وہ خود اس دنیا سے چل بسے ۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس میں قصور کس کا تھا؟ غربت کا؟ جہالت کا؟ لالچ کا؟ سرکار کا یا پھر قسمت کا؟ تو پہلے بات کروں گا قسمت کی! جن لوگوں کے پاس کوئی جواز نہیں ہوتا وہ بات ڈال دیتے ہیں قسمت پر! یہ بات تو اٹل ہے کہ موت اٹل ہے اور یہ اپنے شکار کو وہاں لے جاتی ہے جہاں مارنا ہوتا ہےمگر قسمت تو اٹل نہیں ہے اپنے ہاتھ میں نہ سہی مگر رب نے دعا کا اختیار دیا ہے جو بدل دیتی ہے قسمت اور مقدر کے کھیل خیر یہاں “بدل سکتی تھی” لکھوں تو زیادہ بہتر ہو گاخیر مان لیا کہ قسمت کا ہی قصور ہو گا اب بات کروں گا غربت کی ۔ غربت کسے کہتے ہیں پہلی بات تو یہ ہے؟ کسی دانشور نے لکھا تھا جب سر ڈھانپنے کے لئے چھت نہ ہو جب کھانے کو کھانا نہ ہو جب پہننے کو کپرے نہ ہوں تو اسے کہتے غربت! تو میرا سوال ہی ہے کہ کیا ان لوگوں کے پاس ہی سب کچھ نہیں تھا؟ پھر اگر ایسا تھا بھی تو کیا ۷-۱۰ بالٹی پیٹرول سے یہ غربت ختم ہو جاتی؟ اول تو یہ غربت تھی ہی نھی کیوں کہ کسی نے کہا تھا کہ غریبی کی اگر مجسم شکل ہوتی تو لوگ ڈر جاتے اس سے! اس قدر خوفناک شے ہے یہ! یاں میں کہوں گا کہ لالچ کا بھی بھرپور کردار تھا اس سانحے میں ۔ اب باآتی ہے جہالت کی۔ تو معزز قارئین کس کو نہیں پتہ تھا کہ وہ ایک آتشگیر مادہ ہے ڈرائیور کے مطابق لوگوں کو روکا گیا مگر وہ نہیں رکے۔ اور سننے میں آیا ہے کہ جلتی سگرٹ سے آگ بھڑکی! تو قصور کس کا ہوا؟اب جہالت اور کم علمی کا بھی بھرپور ھاتھ ہوا نہ اس میں؟ اب بات ہے سرکار کی! تو قارئیں اگر فرض کر لیں کوئی اور حکومت بھی ہوتی تو وہ جو موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے کیا کر لیتی انکا کوئی اور سرکار؟ اور جو ذخم ہوئے انکو کسی نہ کسی مقام پر پنہچا دیا گیا! کسی نے کہا ان ٹریلرز کے لئے الگ سڑک ہوتی! تو بھائی جب سرکیں بناتے ہیں تو ہم اعتراض کرتے کہ دیکھو تو تعلیم اور صحت پہ توجہ دینے کی بجائے سڑکیں بنا رہے ہیں اب بات ہے تعلیم و تدریس کی تو یقین کیجئیے سرکار نے بہت کھینچ رکھا ہے انہے بھی جو کام کرنے کو تیار نہیں تھے آٹھ بجے سکول ہوتے ہیں! اور جہاں تک صحت کا سوال ہے تو یقین کیجئے مرنے والے جو وہیں مر گئے وہاں تک کسی سرکار کا قصور نہیں تھا مگر جب بات آئی زخمیوں کی تو وہقں سرکار کا قصور تھا! ۴۰۰ کلومیٹر میں کوئی برن سنٹر نہیں یہ سرکار کی غلطی ہے سہولیات کا بی وی ایچ میں فقدان تھا! یہ غلطی ہے سرکار کی! تو اس سب تمہید کے بعد میں تو یہ کہوں گا کہ قصوروار کوئ ایک نہیں تھا قصور تھا جہالت کا، کم علمی کا، غربت کا، لالچ کا اور سرکار کا بھی سب کے سب عوامل کم یا زیادہ ملوس تھے اس میں ! بقول شاعر میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں میرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں اللہ تمام مرنے والوں کی بخشش فرمائے آمیں والسلام شاہان عماد حسن
آنکھ تو یہ سن کر ہی آبدیدہ ہو گئی کہ ۱۵۰ لوگ جھلس گئے اور مر گئے۔مگر یہ دیکھ کر اور سن کر دل خون کے آنسو رویا، کلیجہ منہ کو آیا کہ ان میں بچے بھی شامل تھے! یہاں نسلوں کا زکر صرف ان بچوں کی وجہ سے کیا۔ جن بچوں نے اس ملک کا مستقبل بنانا تھا وہ خود اس ملک کا ماضی بن گئے۔ جن بچوں نے اس وطن کو آگے لے کر چلنا تھا وہ خود اس دنیا سے چل بسے ۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس میں قصور کس کا تھا؟ غربت کا؟ جہالت کا؟ لالچ کا؟ سرکار کا یا پھر قسمت کا؟ تو پہلے بات کروں گا قسمت کی! جن لوگوں کے پاس کوئی جواز نہیں ہوتا وہ بات ڈال دیتے ہیں قسمت پر! یہ بات تو اٹل ہے کہ موت اٹل ہے اور یہ اپنے شکار کو وہاں لے جاتی ہے جہاں مارنا ہوتا ہےمگر قسمت تو اٹل نہیں ہے اپنے ہاتھ میں نہ سہی مگر رب نے دعا کا اختیار دیا ہے جو بدل دیتی ہے قسمت اور مقدر کے کھیل خیر یہاں “بدل سکتی تھی” لکھوں تو زیادہ بہتر ہو گاخیر مان لیا کہ قسمت کا ہی قصور ہو گا اب بات کروں گا غربت کی ۔ غربت کسے کہتے ہیں پہلی بات تو یہ ہے؟ کسی دانشور نے لکھا تھا جب سر ڈھانپنے کے لئے چھت نہ ہو جب کھانے کو کھانا نہ ہو جب پہننے کو کپرے نہ ہوں تو اسے کہتے غربت! تو میرا سوال ہی ہے کہ کیا ان لوگوں کے پاس ہی سب کچھ نہیں تھا؟ پھر اگر ایسا تھا بھی تو کیا ۷-۱۰ بالٹی پیٹرول سے یہ غربت ختم ہو جاتی؟ اول تو یہ غربت تھی ہی نھی کیوں کہ کسی نے کہا تھا کہ غریبی کی اگر مجسم شکل ہوتی تو لوگ ڈر جاتے اس سے! اس قدر خوفناک شے ہے یہ! یاں میں کہوں گا کہ لالچ کا بھی بھرپور کردار تھا اس سانحے میں ۔ اب باآتی ہے جہالت کی۔ تو معزز قارئین کس کو نہیں پتہ تھا کہ وہ ایک آتشگیر مادہ ہے ڈرائیور کے مطابق لوگوں کو روکا گیا مگر وہ نہیں رکے۔ اور سننے میں آیا ہے کہ جلتی سگرٹ سے آگ بھڑکی! تو قصور کس کا ہوا؟اب جہالت اور کم علمی کا بھی بھرپور ھاتھ ہوا نہ اس میں؟ اب بات ہے سرکار کی! تو قارئیں اگر فرض کر لیں کوئی اور حکومت بھی ہوتی تو وہ جو موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے کیا کر لیتی انکا کوئی اور سرکار؟ اور جو ذخم ہوئے انکو کسی نہ کسی مقام پر پنہچا دیا گیا! کسی نے کہا ان ٹریلرز کے لئے الگ سڑک ہوتی! تو بھائی جب سرکیں بناتے ہیں تو ہم اعتراض کرتے کہ دیکھو تو تعلیم اور صحت پہ توجہ دینے کی بجائے سڑکیں بنا رہے ہیں اب بات ہے تعلیم و تدریس کی تو یقین کیجئیے سرکار نے بہت کھینچ رکھا ہے انہے بھی جو کام کرنے کو تیار نہیں تھے آٹھ بجے سکول ہوتے ہیں! اور جہاں تک صحت کا سوال ہے تو یقین کیجئے مرنے والے جو وہیں مر گئے وہاں تک کسی سرکار کا قصور نہیں تھا مگر جب بات آئی زخمیوں کی تو وہقں سرکار کا قصور تھا! ۴۰۰ کلومیٹر میں کوئی برن سنٹر نہیں یہ سرکار کی غلطی ہے سہولیات کا بی وی ایچ میں فقدان تھا! یہ غلطی ہے سرکار کی! تو اس سب تمہید کے بعد میں تو یہ کہوں گا کہ قصوروار کوئ ایک نہیں تھا قصور تھا جہالت کا، کم علمی کا، غربت کا، لالچ کا اور سرکار کا بھی سب کے سب عوامل کم یا زیادہ ملوس تھے اس میں ! بقول شاعر میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں میرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں اللہ تمام مرنے والوں کی بخشش فرمائے آمیں والسلام شاہان عماد حسن