بڑا بھائ ہونے کے ناطے وہ مجھ سے بے حد محبت کرتا تھا. ……….اتنا پیار دیتا کہ ماں کی ممتا کی کمی مجھے
کسی صورت محسوس نہیں ہوتی تھی…….
ولی عہد ہونے کی حیثیت سے ریاست کے تمام امور میں اس کا مشورہ کافی وقعت رکھتا تھا…… تلوار بازی اور تیراندازی پر اسے عجب عبور حاصل تھا……..ہر کوئ اس کی بہادری اور ذہانت کی تعریفیں کرتا تھا……..اندر ہی اندر مجھے یہ باتیں بہت کھٹکتی رہتیں.
بڑے عرصے بعد ریاست پر زوردار حملہ ہوا تھا…..جنگ میں شہنشاہ یعنی میرے بابا کی شہادت کے بعد میرے بڑے بھائ نے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا…..شدید گرمی کے موسم میں تلواروں کی یلغار اور گھوڑروں کی پھرتی نے تہلکہ خیز منظر پیش کر دیا تھا. مجھے بھائ نے سختی سے جنگ سے دور رہنے کا حکم دیا تھا.
آج جنگ کو چھ دن گزر گئے تھے……..ابلتی شباب میں بھائ کی تلوار کا جذبہ دیدنی تھا ……. اچانک ہی ہر طرف سے صدائیں بلند ہوئیں
“سپہ سالار مر گیا…بھاگو…..اپنی جان بچاوء”
میرے بھائ نے دشمن فوج کے سپہ سالار کو مار گرایا تھا اور دشمن فوج ڈر کر بھاگ گئ تھی . شام کا وقت ہو جانے کی وجہ سے صبح کو قلعے کی طرف واپسی کا فیصلہ کیا گیا.
رات کی تاریکی میں ایک ملعون نقاب پوش نے میرے بھائ پر حملہ کر دیا. بھائ نے نہایت ہی پھرتی سے حملہ روکا اور وہ دور جا گرا….. بھائ اس پر تلوار سے ضرب لگانے ہی لگا تھا کہ اس نے اپنا نقاب اٹھا دیا………اسے دیکھتے ہی تلوار بھائ کے ہاتھ سے چھوٹ گئ ، بدن کاپنے لگا ، رگوں میں دوڑتا خون ساکن ہو گیا، کپڑے پسینے سے شرابور ہو گئے اور آنکھوں سے آنسووءں کی لڑی رواں ہوگئی……لب ہلکے سے ہلے اور آواز آئ
“چھوٹے !.. تو!”
میں فورا اپنے خیمے کی طرف بھاگا…… مجھے اپنے اس جرم کی سزا کا بے حد خوف تھا …….اس خوف سے مجھے رات گئے تک نیند نہیں آئ…..
صبح بیدار ہوا تو ہر طرف ماتم کا سماں تھا.میں باہر نکلا تو خون سے لہولہان حاکم وقت کی مسکراتی ہوئ لاش میدان کے بیچوں بیچ پڑی ہوئ تھی………خنجر جتنی مضبوطی سے لاشے میں دھنسا ہوا تھا ، اتنی مضبوطی سے اسکے ہاتھ نے اسے تھاما ہوا تھا ……… لوگوں نے اس قتل کو خودکشی کا نام دیا تھا……..
اس میدان میں لاش تو ایک پڑی تھی مگر روحیں دو پرواز کر گئ تھیں…..
Written By:
MUHAMMAD ABDULLAH HASSAN
2nd year
