میری آرزو تھی
پہلی بار جب دیکھا تھا تجھکو
تجھے اپنا بنانے کی میری آرزو تھی
آنکھوں سے آنکھیں ملانے کی کوشش
اور ان جھیل سی آنکھوں میں ڈوب جانےُکی میری آرزو تھی
تم جو پاس آتے تھے تو وقت تھم سا جاتا تھا
گھڑی کے کانٹے آگے نہ بڑھیں میری آرزو تھی
میری ہر بات پر جو مسکراتے تھے
وہ مسکراہٹ تیری ساتھ رہے میری آرزو تھی
چھوٹی چھوٹی باتوں پہ پریشان ہوتے تھے
تیرا ہر درد مجھ کو ملے میری آرزو تھی
اب اور نہ رہ سکتا تھا تمہارے بنا
میرے بھی آنگن میں تم سا گلاب ہو میری آرزو تھی
کچھ اس ادا سے دل توڑ کہ رخصت ہوئیے
تجھ سا کوئی اور نہ ملے میری آرزو تھی
وہ پھول جو لایا تھا تیرے لیے آج بھی میری غزل کی کتاب میں موجود ہے
وہ پھول لے کر ھاں کر دیتی بس اتنی سی میری آرزو تھی
۔ عمر بنطارق
~3rd year